• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک پاکستان پر ضیاء الحق کا راج تھا۔ پھانسی اور کوڑے عام تھے ۔ سنسرشپ ہرلکھے ہوئے حرف پر، مطبوعہ غیر مطبوعہ لفظ پر تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا سانس لینے پر بھی پابندی ہے ہوائوں پر بھی پابندی ہے۔ کسی سے ملنے پر بھی پابندی ہے۔ انگنت سیاسی کارکن غائب تھے، جو غائب نہیں تھے وہ ٹکٹکیوں پر ٹنگے ہوئے تھے۔لاک اپ، تھانے، جیلیں، ٹارچر سیل ’’ہائوس فل‘‘ جا رہے تھے۔ اگر آپ اس دور کے سیاسی قیدیوں کی تصاویر دیکھیں گے تو سمجھ نہیں پائیں گے یہ قیدی ہیں کہ دولہے، یا دولہے کے خالہ زاد یا چچازاد باراتی۔ زندانوں میں بھی جشن بپا ہوا کرتا تھا۔ لیکن جیلوں کی باہر کی دنیا میں بقول جالب ؎
شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
میں یہ بات آج تک نہیں سمجھ سکا پیپلزپارٹی اور ایم آرڈی والے، یا بائیں بازو والے یہ تو نکلے ہی جمہوریت بحال کروانے اور آمریت ختم کروانے تھے۔ لیکن پھر بھی سندھ میں پی پی پی اور ایم آرڈی یا کئی حالات میں ان سے بھی زیادہ سزائیں ، قید و بند اور تشدد سندھی قوم پرستوں کو برداشت اور مزید برداشت کیوں کرنا پڑا تھا۔ ایسے ہی دنوں میں ہمارے شاعر دوست مظہر لغاری نے ہی سندھی میںلکھا تھا ’’نہ روکو نہ روکو ہوائیں نہ روکو‘‘ مظہر لغاری میری اور اپنی نسل کا نمائندہ شاعر ہے اور جدید سندھی شاعری کا ایک ٹرینڈ سیٹر یا رجحان کار بھی۔ اس نے کہا تھا: ’’نہ روکو نہ روکو ہوائیں نہ روکو‘‘۔ آج بھی مظہر کی ان سطروں میں وہ جادو ہے کہ جب بھی یہ سطریں میں پڑھوں تو مجھے لگتا ہے رکی ہوائیں بھی چلنے لگی ہیں۔ مظہر لغاری، حلیم باغی ، حسن درس اسی دور کی پیداوار اور نمائندہ شاعر تھے اور اب بھی کہلاتے ہیں۔
لیاری کے جیالوں کی مائیں سٹی کورٹ کے لاک اپ کے باہر پولیس والوں کو برا بھلا کہتی دکھائی دیتی تھیں۔ اور جیالے اور غیر جیالے جیلوں میں۔ لیکن اب مارشل لا نہیں بھی ہے گویا پھر بھی مظہر لغاری کی ایسی سطریں ہیں کہ پرانی نہیں ہوتیں۔ مظہر کی یہ سطریں اسوقت بھی پھر پرانے زخموں کی طرح ہری ہو گئیں جب گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب پر اپنے غائب شدہ پیاروں کی رہائی کیلے بہتر گھنٹوں کی بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھی ہوئی خواتین پر تشدد کیا گیا۔ جب مارشل لا ہوا کرتا تھا تو انہیں ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے‘‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن نہ جانے وہ کون تھا جس نے پاکستانی میڈیا میں ان کیلئے ایک اصطلاح ’’حساس ادارے‘‘ قائم کی۔ سندھی اخبارات کب کے انہیں ’’سگھارے ادارے‘‘ لکھتے ہیں۔ ان بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی نوجوان خواتین میں سے ایک سسی لوہار پر بے دریع تشدد کیا گیا اور یہاں تک کہ اسکے کپڑے بھی پھاڑ دئیے گئے۔ اسے زمین پر گرایا گیا۔ اس ناتواں لاغر لیکن بہت ہی با ہمت لڑکی کو ٹھڈے مارکر پھر زمین پر گھسیٹا گیا۔ ایک ورژن یہ ہے کہ ’’سگھارے اداروں‘‘ نے انکے بھوک ہڑتالی کیمپ پر حملہ کیا دوسرا ورژن یہ ہے کہ بھوک ہڑتالی نوجوان خواتین اپنے ان ساتھیوں کو چھڑانے گئیں جو کیمپ پر یکجہتی میں آئے ہوئے تھے۔ جنہیں غیبی اجل کے گھڑسوار زبردستی اٹھا کر لے جانے لگے تھے جن میں سے دو کو وہ اٹھا کر لے جانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ اب ایک نہتی لاغر لڑکی سسی اور اس کی ساتھیوں پر تشدد کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جس میں ایک تنومند بلوان اس لڑکی کیلئے اسکے ساتھیوں کو کہہ رہا ہے:’’اس کو پٹہ ڈالو۔ تم لوگ اس کو پٹہ کیوں نہیں ڈالتے‘‘ کیا زبان ہے اس جری مرد کی ایک خاتون کیلئے۔ سسی گزشتہ سال اپریل دو ہزار سترہ سے غائب اپنے گمشدہ والد (انہیں کالموں میں سے ایک میں، میں نے لکھا تھا) ہدایت اللہ لوہار کی رہائی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ دوسری دو بہنیں تنویر اور نیلم آریجو اپنے والد خادم آریجو کی رہائی کیلئے جہد مسلسل میں ہیں۔ پہلے ان پر ڈنڈے برسائے گئے۔ زد وکو ب کیا گیا۔ سسی کو شاہ بھٹائی کی ان سطروں کی تصویر بنادیا گیا:’’کاندھے سے کرتا پھٹا ہوا اور سر ننگا، میری بہنا اس بھنبھور شہر میں اب میرا کیسے گزارا‘‘ ۔ لیکن یہ سسی اپنے والد کو ڈٖھونڈنے نکلی ہوئی ہے۔اسے گھسیٹا گیا۔ ڈنڈے برسائے گئے اور پھر سندھ حکومت کے دو وزیر بشمول وزیر داخلہ ان کے بھوک ہڑتالی کیمپ پر آئے۔ شاید اس لیے کہ انتخابات قریب ہیں۔ لیکن ان بچیوں پر ہونیوالے تشدد پر پورا سندھ سراپا احتجاج ہے۔ اسلام آباد تک مجھے نہیں معلوم کہ میاں صاحب نے خلائی مخلوق کسے کہا ہے لیکن مجھے یہ معلوم ہے یہ بچیاں زمین زادیاں ہیں زمینی مخلوق ہیں ۔ مجھے جو معلوم ہے وہ سب نامعلوم کہ زمرے میں آتا ہے۔ نامعلوم لوگ معلوم ہوتے ہوئے بھی، جنہوں نے ان خواتین اور نوجوانوں پر تشدد کیا وہ شاید زمینی قوانین سے ماورا تھے۔ ماورائے آئین لوگ ۔ وہاں جہاں ساری دنیا کا میڈیا ہوتا ہے لیکن دوسرے گھنٹے یا دن وہ خبر بھی نا معلوم ہوتی بنی۔ زمینی مخلوق کیڑے مکوڑے ہیں۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے قائد اعظم یونیورسٹی کے سندھی طلبہ گمشدہ لوگوں اور انکے ورثا پر تشدد کے خلاف بھوک ہڑتال پر بیٹھے اور ان سے یکجہتی بہت بڑا جرم ٹھہرا۔
زمین زاد اس شاعر مظہر لغاری کا مارشل لائوں کے زمانے میں لکھا پھر تازہ ہوگیا کہ:
وہ اشخاص سگریٹ جسموں پہ جن کے بجھائے گئے
اور جن کا مقدر بنے جیل تھانے
اور ان کی ملاقات کو آئی ان کی بہنیں
اور مائیں نہ روکو
ہوائیں نہ روکو
میں سوچ رہا ہوں اب تو مارشل لا ئیں بھی نہیں مگر پھر بھی
سندھی میں ہوائیں نہ روکو مظہر لغاری کی شاعری کی تازہ کتاب بھی تو ہے اس پر پھر سہی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین