• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداداد میں ان دنوں سیاسی بے یقینی ہیجان کی حدوں کو چھو رہی ہے جب احباب یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ تو جواب دینے سے پہلے سوال کی کئی نفسیاتی وجوہ ذہن میں آتی ہیں۔ اوّل تو عوامی ذہن میں ابہام ہے کہ الیکشن 2018 کا انعقاد بروقت ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ اگرچہ التوا کا امکان محض پانچ فیصد ہے لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس کا جواز کیا تراشا جائے گا؟ کیونکہ آئینی شقوں کے مطابق تو اس کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو ہم زندہ پیر مانتے ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کے لیے وہ کارنامہ کر دکھایا جو اُن کی پارٹی کے اندر کا کوئی لیڈر سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ اس طرح آج وہ اپنی پارٹی میں واپس آئے ہیں تو ایسے جیسے اپنے گھر میں لوٹے ہیں جس پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی اور بعض ایسے بھی ہیں جو پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی پارٹی میں نہیں لگتے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے بہت پہلے دھرنوں کے دوران ہی وہ سب باتیں میڈیا کے سامنے کہہ دی تھیں جن کا یارا بعض لوگ کو آج بھی نہیں ہو رہا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جن لوگوں کو الیکشن کے بروقت منعقد ہونے کے حوالے سے خدشات ہیں اُن کی رائے کو سو فیصد مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ ایسی جسارت خلاف آئین قرار پائے گی مگر توجیہات کرنے والے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دور دور کی کوڑیاں لاتے رہے ہیں وہ اس حوالے سے بھی حیلوں کی کتاب سے حجتیں نکال لائیں گے اور کہنے والے یہ کہتے رہیں گے کہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ یا یہ کہ من پاپی حجتاں ڈھیر۔
معزز قارئین وطنِ عزیز میں بددلی و بے یقینی کی اولین وجہ تو واضح ہے کہ اگر بعض افراد کو اپنے ہم نواؤں کی جیت ہوتی دکھائی نہ دی اور خلائی مخلوق کے خلاف نعرے لگانے والے کی وسیع عوامی حمایت جاری و ساری رہی تو پھر عبوری حکومت کی میعاد بڑھانے اور الیکشن کو التوا میں لے جانے کے لیے دلیل بازی شروع ہو جائے گی۔
اس وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے خلائی اور زمینی ہر دو مخلوقات ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے آخری حدود تک جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ممبئی دھماکوں کے متعلق جو اعصابی جنگ ہوئی ہے وہ بھی اس بڑی لڑائی کا حصہ ہے۔ پاپولر جمہوری قائد کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے اگر کہیں جھوٹی بے بنیاد کہانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے تو اقتدار کی جنگ میں اُسے بھی جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ ریکارڈ کی گواہی سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن 2013 کے نتائج کو ابتداً سب نے تسلیم کر لیا تھا مگر مخالفین نے جب یہ فیصلہ کر لیا کہ پاپولیرٹی پر اترانے والوں کی تذلیل کرنی ہے تو سب سے پہلے انتخابی دھاندلی کا شور اٹھایا گیا پھر دھرنا ون ٹو اور ٹو پلس جیسی شدید ترین کاوشیں کی گئیں۔ پاناما سے اقاما تک کی روداد بھی قابل ملاحظہ ہے بیرونی حملوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر اندرونی حملوں کا بھی اہتمام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے اس کو اپاہج بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں چھوڑی گئی۔ آزاد میڈیا کی انہیں جو ڈھارس حاصل تھی اس کا قلع قمع کرنے کے لیے وہ کچھ کر دکھایا گیا جس کی مثال مارشل لا ادوار میں بھی نہیں ملتی۔ اب اس سازشی تھیوری کو ممبئی دھماکوں کے متعلق بیان سے جوڑتے ہوئے گویا تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکی جا رہی ہیں حتیٰ کہ حمایتی بھی پریشان ہو کر سوچتے ہیں کہ آخر معروف انگریز اخبار کے ذریعے ایسی سچائیاں بیان کرنے کی مجبوری کیا تھی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ باہمی چپقلش ان بلندیوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کوئی بھی انسان یہ جواز لینے تک جا سکتا ہے کہ میں جھوٹی پردے پوشیاں کیوں کروں اور پھر پردے والی بات رہی کہاں ہے؟ آخر ڈان لیکس میں کونسی ایسی پوشیدہ چیز تھی جسے بنیاد بنا کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا گیا؟ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد جب ہماری ناک کے نیچے سے برآمد ہوا اور پوری دنیا نے اس کا نظارہ کیا تو پھر ایسی تمام تر وارداتوں میں ایسی کونسی رازداری تھی جس کا تیاپانچہ ہو گیا تھا؟ بشمول امریکا پوری دنیا میں آخر کسے معلوم نہیں کہ ڈبل چہرے کے ساتھ کہاں کہاں دہری گیمیں نہیں کھیلی جا رہی ہیں؟ اس تمام تر پروپیگنڈے اور واویلے کا مقصد سوائے اس کے کیا ہے کہ خلا سے زمین پر اتنے میزائل برسائے جائیں کہ پاپولیرٹی کا دعویٰ رکھنے والے منہ کی کھاتے ہوئے منہ چھپانے پر مجبور ہو جائیں۔معاملہ محض مختلف النوع میزائلوں تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلوچستان ماڈل جیسے کھیل کا عملی اہتمام بھی کیا جائے گا۔ فاٹا اورKP تو اپنا ہے ہی سندھ کو ہڈی دکھاتے ہوئے اقتدار کا سچا جھوٹا چکمہ اپنی گرفت میں لے چکا ہے کراچی میں بھی مہاجر طاقت کو منشتر کرتے ہوئے مثبت نتائج کو یقینی بنانے کی کاوشیں جاری و ساری ہیں۔ بلوچستان میں سابقہ ہنگامہ محض چھوٹے مفاد کے حصول کی خاطر تو نہیں تھا۔ اگر شیرینی والا زہر گندے زہر جیسے نتائج دے تو پھر گند میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسے حالات میں عوامی سطح پر اگر بے یقینی ہے تو اس میں اچنبھے والی آخر کونسی بات ہے۔

تازہ ترین