• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گائوں کے نمبردار سے کچھ نوجوان ،گائوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے چندہ مانگنے آئے ۔گائوں کے نمبردار نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور کہنے لگا کہ میں نے گائوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک بڑا زبردست اور ٹھوس منصوبہ بنایا ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے بعد گائوں کے کس شخص کو ملازمت اور زندگی گزارنے کیلئے کسی بھی مسئلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔نوجوان بڑے تجسس سے اس نمبردار کی بات اور منصوبہ سننے لگے۔ نمبردار نے بتایا کہ گائوں سے سڑک تک جو واحد طویل راستہ جاتا ہے، میں نے اس راستے کو دونوں اطراف کیکر کے درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے ۔نوجوانوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا۔ تو نمبردار نے اپنی چادر کا نیچے گرا ہوا پلو دوبارہ کندھے پر ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کیکر کا درخت اپنے نوکیلے کانٹوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ نوجوانوں نے یک زباں ہو کر کہا جی ہاں ہمیں یہ معلوم ہے تو نمبردار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب یہ کیکر کے چھوٹے چھوٹے پودے تناور درخت بن جائیں گے، تو ہمارے گائوں کی پیداوار کپاس جو اونٹوں پر لاد کر شہر تک لے جائی جاتی ہے، وہ اونٹ جب اس کیکر کے درختوں والے راستے سے گزریں گے تو بہت ساری کپاس کیکر کے کانٹوں سے الجھ کر وہاں پھنس جائے گی جب اونٹوں کا کارواں گزر جائے گا تو ہم کیکر کے ان درختوں سے وہ کپاس اتاریں گے، اسے مارکیٹ میں بیچیں گے جبکہ حاصل شدہ رقم سے بے روزگار نوجوانوں کو وظائف دیں گے اور دیگر لو گو ں کی فلاح کیلئے بھی خرچ کریں گے۔ نوجوانوں نے نمبردار کا جب یہ منصوبہ سنا تو بے اختیار انکی ہنسی نکل گئی۔ جواب میں نمبردار نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ جب آپ بے روزگاری ختم کرنے کی یہ خوشخبری سنیں گے تو آپ کے چہروں پر اس طرح خوشی کی لہر دوڑ جائے گی اور قہقہے پھوٹنے لگیں گے۔2018 کے الیکشن کی آمد آمد ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور بھی نمبردار کی طرح کے’’ ہاسے‘‘ والے منصوبے ہوتے ہیں جو اقتدار کی مدت ختم ہونے تک پورے نہیں ہوتے اور حکمران شرمندہ ہو کر عوام سے معافی مانگنے کی بجائے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر انہیں انتخابات میں عوام نے ووٹ دے کر دوبارہ اقتدار سونپا تو وہ اپنے منشور کو ضرور مکمل کریں گے۔ لیکن ہمارے عوام کے بھی کیا کہنے ووٹ کے حوالے سے جتنے سخی دل یہ واقع ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور ملک کے لوگ ووٹ کے حوالے سے اتنی سخاوت کرتے ہوں۔ میرے پاس کچھ نوجوانوں کا گروپ آیا جن میں مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلبہ تھے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے 2013 کے الیکشن میں کس کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔ سب نے اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے بارے میں بتایا اور میرے پوچھنے پر یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ ووٹ کس وجہ سے دیا تھا ،تو نوجوان طلبہ نے اس پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ انہوں نے فلاں فلاں وعدہ اور فلا ں سوچ کی وجہ سے ووٹ دئیے تھے کہ ہماری پسندیدہ جماعت کے رہنما عوام کے فلاح کیلئے یہ یہ کام کروائیں گے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان سیاسی جماعتوں نے انکی توقعات کے مطابق وہ کام کیے ہیں جنکی وجہ سے آپ لوگوں نے انہیں ووٹ دیا۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہوا ۔ہماری امنگوں کے مطابق اور کیے گئے وعدوں کے مطابق وہ کام نہیں ہوئے۔ میرا اگلا سوال تھا کہ اسکا مطلب ہے کہ اب آپ ان لوگوں کو ووٹ نہیں دینگے جنہوں نے آپکی توقعات کے مطابق ملک و قوم کی خدمت نہیں کی لیکن تقریباً سب کا یہ کہنا تھا کہ وہ ووٹ تو اپنی اسی سیاسی جماعت کو ہی دیں گے اور پھر وہ ساتھ ہی اپنی اپنی لیڈر شپ کے گن گانے لگے اور مخالف پارٹی کے رہنمائوںکے خلاف سخت زبان استعمال کرنے لگے۔ البتہ کچھ نوجوانوں نے یہ ضرور کہا کہ اگر اس مرتبہ بھی ہمارے حلقہ سے اس شخص کو پارٹی ٹکٹ دیا تو وہ ووٹ نہیں دیں گے اور جب میں نے اس بات کی کھوج لگانے کی کیلئے ان نوجوانوں سے سوالات کیے، تو معلوم ہوا کہ ان ممبران پارلیمنٹ نے ملا قا ت کے دوران انکی اچھی طرح آئوبھگت نہیں کی تھی ایک نوجوان جسکے پارٹی قیادت کے خلاف سخت تحفظات تھے ،کا کہنا تھا کہ وہ اس مرتبہ بھی اسی پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ دیگااور وہ اس لیے کہ اس اُمیدوار نے ایم این اے بن کر انکے محلے میں گیس کے کم پریشر کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے فل پریشر میں تبدیل کروادیا تھ۔ اس ساری صو رتحال میں، کیا پیش کیے جانے والے منشور اور اقتدار کے پہلے سو دنوں کے لائحہ عمل کو سیاسی پارٹیاں یقینی بنائیں گی یا پھر یہی کہ کہیں سے گیس کا پریشر کم کرا کر کے دوسرے محلے کا پریشر تیز کرا دینے سے، قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ 2018 کے الیکشن کے بعد کیا ہو تا ہے ؟ ایک انتظا ر اور سہی۔

تازہ ترین