• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل سے میرا گلا اتنا خراب ہے کہ ڈاکٹر نے بولنے پر پابندی لگادی ہے۔ زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہوا ہے کہ بولنے اور سننے کا آپس میں گہرا تعلق ہے جبکہ ڈاکٹر نے صرف بولنے پر پابندی لگائی ہے، سننے پر نہیں۔ میں عجب مشکل میں ہوں، جب سنتا ہوں تو جواب دینے کو جی چاہتا ہے اور جب بولنے کی کوشش کرتا ہوں تو چہرے پر اذیت کے منحوس آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ پھر ڈاکٹر کا”مہنگا“ حکم یا د آجاتا ہے اور میں زخمی پرندے کی مانند پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہوں۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو میں فکری مرشد کا درجہ دیتا ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ مرشد اورمرید یعنی علامہ اقبال اور مجھ فقیر و حقیر میں کم از کم دو باتیں مشترک ہیں ورنہ میں نے علامہ اقبال کے لاکھوں مرید دیکھے ہیں جن میں اور علامہ میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں۔ مجھ اور علامہ میں مشترک دو باتیں یہ ہیں کہ وہ بھی ڈاکٹر تھے اور میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ نہ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے نہ ہی میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں۔
دوسری مشترک بات یہ ہے کہ علامہ کا گلا بھی کبھی کبھی خراب ہوجاتا تھا اور میرا گلا بھی کبھی کبھار خراب ہوجاتا ہے۔ خراب گلے کی صورت میں علامہ بھی چپ سادھ لیتے تھے اور میں بھی چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ علامہ خاموش ہو کر غور و فکر میں ڈوب جاتے تھے، قوم کے امراض کا علاج ڈھونڈھنے لگتے تھے اور فلسفے کی گتھیاں سلجھانے لگتے تھے جبکہ میں خاموش ہو کر چائے پینے لگتا ہوں اور فرض کرلیتا ہوں کہ گرم چائے گلے کو آسودہ کرتی ہے۔ ویسے گلا تو ہمارے محترم وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا بھی خراب رہتا ہے لیکن اس خرابی کی وجوہ وہ نہیں جو میری اور میرے مرشد علامہ کی ہیں۔محترم شہباز شریف کا گلا گانے کے ریاض اور سر نکالنے کی مشق کی وجہ سے خراب ہوتا ہے جبکہ علامہ کا گلا حقہ پینے یا پنڈت نہروکے بھیجے ہوئے کھٹے پھل کھانے سے خراب ہوتا تھا۔ میرا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ میرا گلا موسم بدلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ جب ذرا موسم بدلتا ہے تو یہ دکھنے لگتا ہے جیسے اسے پچھلے موسم کے بچھڑنے کا غم ہو حالانکہ ہماری سیاست ہر لمحہ موسم اور رنگ بدلتی رہتی ہے لیکن ان سے نہ میں متاثر ہوتا ہوں اور نہ ہی میرا گلا۔ موسم بدلنے کے دکھ میں بیمار ہونا میری پرانی اور دیرینہ عادت ہے جس نے مجھ سے نصف صدی تک وفا کے تقاضے نبھائے ہیں۔ زمانہ طالبعلمی اور اوائل ملازمت میں لوگ اس وقت تک موسم کی تبدیلی تسلیم نہیں کرتے تھے جب تک میرا گلا خراب نہیں ہوتا تھا۔ ادھر میرا گلا خراب ہوا ادھر انہوں نے گرم کپڑے نکال لئے۔
کل ایک محترم عزیزم کا فون آیا۔ میں نے عرض کیا کہ بات کرنے سے معذور ہوں اور پورا زور لگا کر صرف اس معذوری کی خبر ہی سنا سکتا ہوں۔ انہیں مجھ پر رحم آگیا، فرمانے لگے کہ ڈاکٹروں کو چھوڑیں یہ آپ کو گرم دوائیں کھلا کھلا کر ”ٹھنڈا“ کردیں گے۔ پسند کریں تو آپ کا علاج ایک ماہر حاذق حکیم سے کرواؤں۔ ان کا مخلصانہ مشورہ سن کر مجھے حال ہی میں پڑھی ہوئی کتاب کا ایک پیرا یاد آگیا۔ محترم شجاع الدین غوری صاحب نے ایک کتاب ”تدوین“کی ہے جس کانام ہے ”یہ اقبالئے“۔ یہ کتاب مرشد علامہ اقبال پر لکھے گئے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے چنانچہ جب سے ڈاکٹر نے بولنے پر پابندی لگائی ہے میں مسکرانے کے لئے یہ کتاب پڑھ رہا ہوں۔ جب ان صاحب نے حکیم کے علاج کا مشورہ دیا تو مجھے اس کتاب میں پڑھا ہوا محترم ابن انشاء کے مضمون کا ایک پیرا یاد آگیا۔ محترم ابن انشا ء میرے مہربان تھے اور میں ان کا مخلص مداح۔بہرحال آپ ذرا ابن انشاء کے لطیف مزاح کا لطف اٹھائیے اور دیکھئے کہ میں نے حکیم کے علاج سے کیوں انکار کیا۔
لکھتے ہیں ”ڈاکٹر اقبال ڈاکٹر تو تھے، خواہ نام ہی کے تھے ،کیونکہ انجکشن وہ نہ لگاسکیں، مکسچر وہ نہ دے سکیں اور فیس وہ نہ لے سکیں۔ اس پر عقیدت مندوں نے انہیں حکیم الامت کا لقب بھی دے دیا۔ وہ خود آخری عمر تک حکیموں کے زیر علاج ضرور رہے اور سچ یہ ہے کہ انہی کے ہاتھوں مرے“۔ اسی مضمون میں محترم ابن انشاء مرحوم ایک غیر ملکی نکتہ داں کا ذکر کرتے ہیں جس نے یوم اقبال پر صدارت کی اور اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا”اقبال صاحب بہت بڑے اور مایہ ناز شاعر تھے، سمجھ میں نہیں آتا کیوں مرگئے اور قوم کی نیا بھنور میں چھوڑ گئے۔ سنا ہے ڈاکٹروں حکیموں کی دوائیں کھا کھا کر مرگئے۔ ابھی طبی سائنس کو ترقی کرنی ہے۔ایک دوا ساز کمپنی(جس کا میں نمائندہ ہوں) نے اس پر ریسرچ کا شعبہ کھولا ہے۔ ہماری تحقیقات کامیاب ہوگئیں تو آئندہ اچھے اچھے شاعر مرا نہیں کریں گے، بلکہ صدیوں ایڑیاں رگڑا کریں گے۔ ان کی جان نہیں نکلا کرے گی(تالیاں)“۔اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اپنے مرشد علامہ اقبال کے بارے یہ انکشافات پڑھ کر میں اپنا علاج کیونکر کراؤں۔ میں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ شاعر نہیں ہوں۔ جب سے میں ابن انشاء کی یہ تحریر پڑھی ہے مجھے اپنے شاعر دوستوں کے بارے بڑے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔ ویسے اس تحریر میں جو کہا گیا ہے کہ اچھے اچھے شاعر مرا نہیں کریں گے، اس میں بھی خیر کا ایک پہلو ہے کیونکہ احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی سے لے کر احمد فراز تک سبھی اچھے شاعر پہلے ہی وفات پاچکے ہیں۔ باقی جو بچے ہیں انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔وہ انشاء اللہ علامہ اقبال کی مانند ڈاکٹروں حکیموں کی دوائیاں کھاتے ”طبی“ موت مریں گے۔ شکر کریں ان پر اچھی شاعری کا الزام نہیں، البتہ اگر انہیں ہماری بات پسند نہیں آئی تو بے شک اپنے نام کے ساتھ اچھا شاعر بھی لکھ لیا کریں، نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ وہ خود ہی ”ہور چوپیں“ گے۔
میری احتیاط اور محبت کا تو یہ حال ہے کہ میں شعیب بن عزیز کو اچھا شاعر سمجھتا ہوں لیکن اسے اچھا شاعر لکھ نہیں سکتا۔”کچھ“ کو صرف ضرورت شعری کے تحت اچھا شاعر لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن میں بددعا نہیں دے سکتا کیونکہ میرے نبی کریم نے بدخواہی سے منع فرمایا ہے۔
آپ شاید حیران ہوں کہ میں نے محترم ابن انشاء مرحوم کے حوالے سے مخلص مداح کی اصطلاح کیوں لکھی؟ وہ اس لئے کہ میں نے ان گنت غیر مخلص مداح دیکھے ہیں جو منہ پر واہ واہ اور غیر حاضری میں ٹھاہ ٹھاہ کرتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب میں شہباز شریف کے ایک مخلص مداح یا چمچے کا فون آیا۔ فرمایا پنجاب نے گینز بک میں آٹھ عالمی ریکارڈوں کا اضافہ کیا ہے جن میں مونچھوں سے گاڑی کھینچنا ،مینڈک کی مانند پھدکنا، کم سے کم وقت میں روٹیاں پکانا اور چیس کی بازی سجانا وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ حضور آپ بھول رہے ہیں اور پنجاب کی فتوحات یا عالمی ریکارڈوں کی تعداد کم کررہے ہیں۔ ان کی باچھیں کھل گئیں جو میں دیکھ نہ سکا اور دیکھ بھی لیا۔ میں نے عرض کیا کہ نواں ریکارڈ یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعلیٰ نے ستر ہزار کے مجمع میں بڑی مدھر آواز میں گانا سنایا ہے اور تقریر کے ساتھ گانے سے سامعین کا دل لبھایا ہے۔
یہ انہوں نے تاریخی خدمت سرانجام دی ہے اور میں ان کو صحیح معنوں میں خادم اعلیٰ سمجھنے لگا ہوں۔ مخلص مداح جھینپ گیا ،کہنے لگا کہ سر آپ ٹھیک کہتے ہیں ہمیں خیال ہی نہ آیا لیکن کوئی بات نہیں کیونکہ ابھی گینز بک والے ہمارے ہی مہمان ہیں۔ میں انہیں جاکر کہتا ہوں کہ پنجاب نے آٹھ نہیں بلکہ نو عالمی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پوچھا کہ حضرت میاں صاحب نے اس تاریخی موقع کے لئے خاص طور پر یہ گانا کیوں منتخب کیا ”اکیلے نہ جانا“،وہ ترنک میں تھا کہنے لگا سر دراصل امن عامہ کی حالت بہت خراب ہے ۔اکیلے جانے میں واردات کا خطرہ رہتا ہے، ظاہر ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب یہ تو نہیں کہہ سکے اس لئے انہوں نے گانے کے ذریعے قوم کو پیغام دیا ہے کہ اپنی اپنی حفاظت کا بندوبست خود کرلو ”تے بندے دے پتر بن جاؤ“ پھر نہ کہنا ہمیں بتایا نہیں تھا۔
تازہ ترین