• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن عدالت کا فیصلہ، پاکستان کو آئی پی پیز کو 14ارب روپے ادا کرنا ہونگے

اسلام آباد ( خالد مصطفیٰ) حکومت پاکستان کیلئے ایک اور جھٹکا، لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن (ایل سی آئی اے) نے نو انڈی پینڈنٹ پاورپروڈیسرز( آئی پی پیز ) کو چودہ ارب روپے بمع سود ادائیگی کے اپنے فیصلے کو پاکستان کی کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے سے مستقل بنیاد پر روک دیا ہے۔ ایل سی آئی اے نے اپنے فیصلے پارشل ا یورڈ(partial Award) کو بھی برقرار رکھا ہے جس میں حکومت پاکستان کو آئی پی پیز کو چودہ ارب روپے دینے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے حکومت پاکستان کے پاس اب اس کے سواکوئی رستہ نہیں کہ وہ چودہ ارب روپےاورkibor 4.5ادا کرے ، نو آئی پی پیز سرکاری ادارے نیشنل ٹرانسمیشن ڈس پیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی ) کیلئے بجلی پیدا کرتے ہیں جو بجلی کا اکلوتا خریدار ہے۔ تازہ ترین منظر نامے میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کو 235ارب روپے دینے ہیں ۔ حکومت پاکستان کے این ٹی ڈی سی کے خلاف جن کمپنیوں نے مقدمہ کر رکھا ہے ان میں اٹلس پاور، لیبرٹی پاور ٹیک، نشاط چونیاں پاور، نشاط پاور، حب پاور کمپنی، سیف پاور،اورینٹ پاور کمپنی، سپفیر الیکٹرک کمپنی اور ہال مور پاور جنریشن کمپنی شامل ہے۔4مئی2018کے فیصلے میں جس کی نقل اس نامہ نگار کے پاس موجود ہے، ایل سی آئی اے نے واضح طور پر کہا ہے کہ آئی پی پیز کے خلاف کسی بھی عدالت میں مقدمہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی حکم امتناع لیا جا سکتا ہے، این ٹی ڈی سی مستقل بنیاد پر پارشل فائنل ایوارڈ(Partial Final Award) کے فیصلے کو برطانیہ اور ویلز کے علاوہ لاہور یا پاکستان کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکے گی۔ یہ فیصلہ جسٹس فلپ نے آئی پی پیز اور این ٹی ڈٖی سی کے مابین تنازعہ میں دیا۔ گزشتہ سال لندن کی عدالت نے آئی پی پیز کے حق میں پارشل فائنل ایوارڈ دیا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ این ٹی ڈی سی آئی پی پیز کے دعوئوں کو عبوری سیکورٹی فراہم کرے،، بعد ازاں عدالت نے این ٹی ڈی سی کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ نجی پاور کمپنیوں کو 14ارب روپے ادا کرے ۔15اگست 2017 کے مصالحتی دعوے میں آئی پی پیز نے این ٹی ڈی سی کو ایل آئی سی اے کے پارشل فائنل ایوارڈ کو برطانیہ اور ویلز کی حدود سے باہرپاکستان میں چیلنج کرنے کے خلاف حتمی حکم امتناع کی درخواست کی تھی۔ فریقین کے مابین فساد کی جڑ یہ تھی کہ کیا پاکستان کی عدالتوں کو اس ثالثی کی نگرانی کااختیار ہے،آئی پی پیز کا موقف ہے کہ ثالثی کا اختیار لندن کی عدالت کو ہےاس لیے نگرانی کا اختیار بھی صرف ویلز اور برطانیہ کی عدالتوں کو حاصل ہے۔ جب کی این ٹی ڈی سی کا موقف ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کو بھی اس کے ساتھ نگرانی کا قانونی اختیار ہے ،این ٹی ڈی سی نے متبادل موقف یہ اختیار کیا ہے کہ اگر سپروائزی جیورسڈکشن صرف ایک ہونی ہے تو پھر یہ یہ ثالثی نشست(Arbitration Seat )لاہور میں ہونی چاہئے۔ایل سی آئی اے نے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ این ٹی ڈی سی اب فیصلے پر عمل درآمد میں اس بنا پررکاوٹ نہیں ڈال سکتی کہ ثالثی نشست لندن میں ہے۔آئی پی پیز اور این ٹی ڈی سی میں اختلافات کی کہانیاں اس سال جنوری میں منظر عام پر آئیں۔ کہا یہ گیا کہ تیل کی کمی کے نتیجے میں پلانٹس دسیتاب نہیں ، کمپنیوں نے اس کا الزام این ٹی ڈی سی پر لگایا کہ وہ ادائیگی نہیں کر رہی ۔ اس کے نتیجے میں سنگین مالی بحران پیدا ہو گیا اور آئی پی پیز کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ اپنے پلانٹس کوپوری پیداوار حاصل کرنے کےلیے تیل فراہم کرسکیں۔ ایل سی آئی اے نے اپنے حتمی ایوارڈ میں این ٹی دی سی کے تمام دلائل، درخواستیں مسترد کر دیں ۔ ایل سی آئی اے نے این ٹی ڈی سی کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کو10.997ارب روپےایکس پرٹ ڈیٹرمی نیشن کی پیروی،2.547ارب روپےایکس پرٹ ڈی ٹر می نیشن کے تناظر میں پری ایوارڈ انٹرسٹ ،82.82ملین روپے ثالثی کےکا معاہدہ توڑنے کی مد میں ، 15.16ملین روپے اور5.51 ملین ڈالر درخواست گزار کو کارروائی اخراجات اور 271,417برطانوی پونڈ ایل سی آئی اے کو ثالثی اخراجات کی مد میں ادا کرے ۔ ایل سی آئی اے نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ 29اکتوبر2017کے بعد آئی پی پیز کو تمام ادائیگی کی جائے۔ پاور پروڈیسرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے آخری چارے کے طور ایل سی آئی اے سے رجوع کیا ، اس لیے کہ این ٹی ڈی سی اور اس کی ضامن حکومت پاکستان ادائیگی کرنے اور پیداوار میں کمی کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی۔ آئی پی پیز نے 2012میں آئین کے آرٹیکل 184تھری کے تحت سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ،عدالت عظمیٰ نے این ٹی ڈی سی کو ہدایت کی تھی کہ وہ تما م بقیہ جات ادا کرے۔ لیکن کمپنی نے کچھ ادائیگی کی اور باقی کے لیے آئی پی پیز اور حکومت کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کیے جن میں یہ کہا گیا کہ وہ پاور پرچیز ایگری منٹس کی روشنی میں تمام ایشوز کو حل کرے گی۔ ماہر کے طور جسٹس سائر علی نے این ٹی ڈی سی کی طرف سے تیس دن میں ادائیگی کے وعدے کو خارج از امکان قرار دیا انہوں نے این ٹی ڈی سی کی کٹوتیوں کو بھی غیر مجاز قرار دیا تا ہم جسٹس سائر علی کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا، چنانچہ آئی پی پیز نے ایل سی آئی اے سے رجوع کر لیا۔ تا ہم ایل سی آئی اے نے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا کہ این ٹی ڈی سی موجودہ فیصلےمیں اس بنا پر رکاوٹ نہیں ڈال سکتی کہ ثالثی نشست لندن نہیں ۔ 
تازہ ترین