• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف نے ماضی میں بڑے کرب سے ہماری قربانی دی،مشاہد اللہ

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ نواز شریف نے ماضی میں بڑے کرب سے ہماری قربانی دی تھی، ترجمان تحریک انصاف فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف سے ان کی جائیدادوں اور پیسوں کا نہ پوچھا جائے تو فوج اور عدلیہ صحیح ہوجائے گی، سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ نواز شریف کی دھرنے سے متعلق باتیں درست ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ انہیں مستعفی ہونے یا چھٹی پر جانے کا پیغام بھیجا گیا لیکن اس کے بعد نواز شریف نے معاملات ٹھیک کرلیے تھے۔سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ وزیراعظم کے مسائل کچھ اور وزیر کے مسائل کچھ اور ہوتے ہیں، نواز شریف نے اس وقت بڑے کرب سے ہماری قربانی دی تھی، نواز شریف چاہتے تھے کہ پاکستان اور عوام کیلئے بہت سے ضروری کام کرلیے جائیں، نواز شریف میرے مسئلہ پر پھنس جاتے تو شاید آج دہشتگردی اور لوڈ شیڈ نگ کے عفریت ختم نہ ہوتے، نواز شریف نے استعفیٰ مانگا تو میں نے دیا تھا، بیان کے بعد پہلے چوہدری نثار کا فون آیا تھا پھر پرویز رشید سے بات ہوئی تھی، بیان کی تردید کر کے مالدیپ چلا گیا تو پرویز رشید کے ذریعہ نواز شریف کا پیغام مجھ تک پہنچا، جب مجھے پتا چلا کہ نواز شریف کے میرے بیان پر تحفظات ہیں تو میں نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس پر اتنا بڑا مسئلہ کھڑا کیا جاتا، اس وقت بات کچھ اور تھی مگر کیا کچھ اور گیا، یہ بات درست نہیں کہ نواز شریف نے اپنے اقتدار کے لئے سمجھوتا کیا تھا، نواز شریف نے پاکستان کے عوام کو حقوق دلانے کیلئے سمجھوتہ کیا تھا، اپنے ساتھیوں کی قربانی دینا بہت حوصلے کی بات ہوتی ہے، اصغر خان کیس میں ظاہر ہوگیا کہ سب جھوٹ تھا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، رحمٰن ملک اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل درانی نے ایک واردات ڈالی تھی، اسلم بیگ کے بیان سے نواز شریف بے گناہ قرار پاگئے ہیں، ایک طرف کہا جاتا ہے نواز شریف لوگوں کو بی ایم ڈبلیو دیتا تھا تو وہ کسی سے پینتیس لاکھ کیوں لے گا۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ضیاء الحق کے دور میں بہت سارے لوگوں نے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا تھا، نواز شریف نے جب کیریئر شروع کیا تو وزیرخزانہ تھے، محمد خان جونیجو کو بھی ضیاء الحق لے کر آئے تھے اور نواز شریف بھی ضیاء الحق کے ساتھ تھے، نواز شریف نے جونیجو کا ساتھ نہیں دیا تو جونیجو لیگ کوئی جمہوری پارٹی نہیں تھی، ضیاء الحق کی ترامیم ختم کرنے والا نواز شریف ہے مگر یہ بات کوئی نہیں کرتا، ضیاء الحق دور میں 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کرائے گئے جو درست نہیں تھے، ضیاء الحق دور میں نواز شریف اتنے بڑے لیڈر نہیں تھے کہ اس دور کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، ضیاء الحق کے دور کا ذمہ دار ضیاء الحق ہی تھا۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ بڑے لیڈر ہر وقت ہر بات نہیں کرتے، کسی کی خواہش پر بھی بات نہیں کرتے، 2012ء میں طاہر القادری کے دھرنے میں ن لیگ نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تھا، 2014ء میں دھرنا دینے والوں کو اسلام آباد لانے میں پیپلز پارٹی نے مدد دی تھی، دھرنے دینے والے جب اسلام آباد پہنچے تو پی پی والے پھر ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے، لیکن ہم بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیخلاف کیس بوگس ثابت نہیں ہوا، سب جانتے ہیں ڈاکٹر عاصم نے اداروں کو لوٹا ہے، چاروں صوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے برابر کے پیسے ملتے ہیں، سندھ میں ترقیاتی منصوبوں میں ایک پیسہ نہیں لگتا تو وہ لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے، ڈاکٹر عاصم کیخلاف سارے کیس رینجرز نے بنائے تھے، ایان علی کے بارے میں بھی لوگ کہتے ہیں بڑی زیادتی کی گئی ،ایان علی کا کیس ہوا تو آصف زرداری کا سیکرٹری اور رحمٰن ملک کا بھائی وہاں موجود تھا۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف پر پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگا کر ملک میں مارشل لاء لگایا گیا، ہر بات ہر وقت کرنے والی نہیں ہوتی ہے، ابھی بھی میرے پاس بہت سی ایسی باتیں ہوں گی جو ممکن ہے میں کل یا پرسوں کروں، انتقال کے وقت محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر تشدد کے نشانات کا علم بھی بہت عرصہ بعد ہوا تھا، وزیراعظم کس وقت کیا بات کرنا چاہتے ہیں وہ وہی بتاسکتے ہیں، اس ملک میں بے شمار سازشیں ہوئی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کا قتل ہوا، نواز شریف جلاوطن ہوگئے، انہیں اقامہ پر نااہل کیا گیا، اس تمام کے پیچھے کچھ تو ہے جو آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے۔ترجمان تحریک انصاف فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کی ماضی کی سیاست سب کے سامنے ہے، اگر جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کی مدد نہ ہوتی تو نواز شریف کونسلر بھی نہیں بن سکتے تھے، نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہی اس مقام پر پہنچے ہیں، کبھی کوئی ادارہ پورا ملوث نہیں ہوتا شخصیات ملوث ہوتی ہیں، نواز شریف نے ممبئی حملوں سے متعلق بیان دے کر ادارے کو ٹارگٹ کیا ہے، نواز شریف کو سمجھ نہیں کہ افراد اور اداروں کا کیا کردار ہوتا ہے وہ دونوں کو اکٹھا کردیتے ہیں اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، کسی ایک فرد کی وجہ سے پورے ادارے کو ریڈ لائن نہیں کیا جاسکتا ہے، نواز شریف کے ماضی اور حال کے بیانات دیکھیں تو کسی سابق وزیراعظم کے لحاظ سے غیرذمہ دارانہ ہیں، پاکستان کی عدلیہ اور عوام کی ہمدردی عمران خان کے ساتھ ہے، پاکستان میں کون ایسا ہوگا جس کی ہمدردی عمران خان کے ساتھ نہیں ہوگی، ہر سچا پاکستانی دہائیوں سے پاکستان سے چمٹی ان جونکوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی سیاسی تحریکیں چلاچکے ہیں، دھرنے سے پہلے سکون تھا تو ماڈل ٹائون میں سولہ بندے کیوں مروادیئے گئے، نواز شریف نے چار حلقے کھولنے کا وعدہ کیا مگرپھر مکر گئے،نواز شریف سے ان کی جائیدادوں اور پیسوں کا نہ پوچھا جائے تو فوج اور عدلیہ صحیح ہوجائے گی، نواز شریف صرف یہ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ٹرائل جج سے بات کر کے اور جنرل قمر باجوہ بریگیڈیئروں سے بات کر کے ان کی جان خلاصی کروادیں۔سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ نواز شریف اپنے خلاف کیس سے توجہ ہٹانے کیلئے مشرف کارڈ استعمال کررہے ہیں، سچ یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ سمجھوتہ کر کے پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجاز ت دی تھی، اگر نواز شریف کیخلاف سازشیں پرویز مشرف کی وجہ سے شروع ہوئیں تو پرویز مشرف تو مارچ 2016ء میں چلے گئے تھے جبکہ پاناما اسکینڈل اپریل 2016ء میں شروع ہوا تھا، ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف پورا سچ نہیں بول رہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ مجھے اور نواز شریف دونوں کو پتا تھا کہ 2014ء کے دھرنے کا مقصد انہیں نکالنا نہیں مشرف کو بچانا تھا، دھرنے کے وقت تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھیں، نواز شریف اب بات کرتے ہوئے ان تمام پارٹیوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے دھرنے کے مشکل دور میں ان کا ساتھ دیا، اس زمانے میں نواز شریف کی اپنی پارٹی اور خاندان کے لوگ انہیں بھی اور مجھے بھی کہہ رہے تھے کہ مشرف کے ٹرائل پر موقف میں لچک پیدا کریں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف کے تازہ ترین دعوئوں پر سب سے دلچسپ ردعمل تحریک انصاف کا ہے، تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ نواز شریف جب بھی اقتدار سے الگ ہوتے ہیں الزام تراشی شروع کردیتے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ 1993ء میں نواز شریف کی حکومت کرپشن کے الزام پر گئی تو انہوں نے الزام لگایا کہ فوجی جرنیلوں نے منشیات فروشی کی اجازت مانگی تھی، فواد چوہدری نے آج جس انٹرویو کا حوالہ دیا وہ بارہ ستمبر 1994ء میں ایک امریکی اخبار میں شائع ہونے والا نواز شریف کا وہ انٹرویو ہے جو پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے سینئر صحافی کامران خان اور ایک غیرملکی صحافی جان وارڈ اینڈرسن کی تحقیقاتی رپورٹ کا حصہ ہے، نواز شریف نے اس انٹرویو میں موقف اختیار کیا تھا کہ 1990ء میں جب وہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے تو آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد درانی نے ان سے کہا کہ پاکستان کی افواج کو خفیہ آپریشنز کرنے کیلئے مزید فنڈز کی ضرورت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان فنڈز کو منشیات کی اسمگلنگ کے ذریعہ اکٹھا کیا جائے، نواز شریف کے مطابق دونوں جرنیلوں نے ان سے کہا کہ آپریشن تیسری پارٹی سے کروایا جائے گا جو قابل اعتماد ہے اس پورے عمل میں کہیں پاکستان کا نام نہیں آئے گا، نواز شریف کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ یہ سن کر وہ حیران ہوگئے اور بعد میں جنرل بیگ کو ہدایت دی کہ پاکستانی افواج منشیات کی اسمگلنگ کی کوئی بھی حکمت عملی نہ بنائے، اسی انٹرویو میں جنرل اسلم بیگ کا انٹرویو بھی شامل ہے جس میں ان کا کہناتھا کہ ہم نے کسی بھی موقع پر اتنی غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا، سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ بہت کچھ کہتے ہیں اس میں سچائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اسد درانی نے بھی اس بات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے یہ بات کرنا احمقانہ ہے مجھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی، اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1993ء میں حکومت گئی تو نواز شریف نے امریکی اخبار کو یہ انٹرویو دیا، 1999ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کی کارگل کی وجہ سے ہٹائی گئی اور اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید بھی کی، اب نواز شریف کا کہنا ہے کہ مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے اور پھر پیچھے نہ ہٹنے کی وجہ سے انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔  
تازہ ترین