• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے اطراف جنگل نہیں ہے مگر پھر بھی برپٹ بیابانی کے پچاس برس بعد ہوش میں آنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہماری بستی کے کونے کونے تک پھیل گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے مجھے خیال آیا کہ فون کرکے فائر برگیڈ کو مطلع کردوں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بستی کی آگ پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ میں نے اپنے خیال کو خام جانا اور اس پر عمل نہیں کیا۔ فائر برگیڈ والے ایک ہی طرح کی آگ بجھا سکتے ہیں۔ ایسی آگ جس سے شعلے لپکتے ہیں، دھواں دکھائی دیتا ہے۔ فائر برگیڈ والے حسد کی آگ نہیں بجھا سکتے، خوابوں اور امیدوں کو لگی ہوئی آگ بجھا نہیں سکتے۔ ایسے میں فائر برگیڈ کو مطلع کرنا بے سود تھا۔
مجھے یقین ہے کہ برپٹ بیانانی کا نام آپ نے نہیں سنا ہوگا۔ برپٹ بیابانی نے اپنی زندگی کے پچاس سے زیادہ برس بے ہوشی کے عالم میں نہیں گزارے ہوتے اور اس نے اپنی شاعری جاری رکھی ہوتی تو آج برپٹ ریگستانی کا شمار ملک کے نامور شعرا میں ہوتا۔ لازماً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ایسی بے ہوشی بھی ہوتی ہے جو آدھی صدی پر طاری رہتی ہے؟ برپٹ بیابانی کب بے ہوش ہوا تھا؟ کیسے بے ہوش ہوا تھا؟ کیا وہ نہاتے ہوئے باتھ روم میں گر پڑا تھا؟ کیلے کے چھلکے سے پھسل کر فٹ پاتھ پر گر پڑا تھا؟ یا اسے سانپ نے سونگ لیا تھا؟ یا پھر کسی سر پھرے اور بپھرے ہوئے سیاست دان کی دھواں دار تقریر سن کر بے ہوش ہوگیا تھا؟میں آپ کو تجسس میں رکھنا نہیں چاہتا۔ برپٹ بیابانی کے بارے میں آپ کو میں سب کچھ بتا دیتا ہوں۔ برپٹ بیانانی اپنے والدین کے ساتھ راجستھان کے چھوٹے سے شہر راجکوٹ سے پاکستان آیا تھا۔ اس وقت برپٹ کی عمر تھی بارہ برس۔ راجکوٹ میں برپٹ بیابانی کے والد کی چھوٹی سی پنساری کی دکان تھی۔ کراچی آنے کے بعد اس نے ڈیڑھ دو برس ریفیوجی کیمپ میں گزارے۔ کیمپ میں بھی زمین پر چادر بچھا کر وہ پھٹکڑی، ہلدی اور ہینگ بیچتا تھا۔ پنساری ہونے کے ناتے وہ راجکوٹ کے اچھے خاصے لوگوں کو جانتا تھا۔ ریفیوجی کیمپ میں زندگی بسر کرتے ہوئے اسے تعجب ہوتا تھا کہ ایسے لوگ جن کے پاس راجکوٹ میں سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی انہوں نے کراچی میں بڑے بڑے ایویکیو فلیٹ اور مکان حاصل کر لئے تھے۔جو راجکوٹ میں ریڑھی چلاتے تھے انہوں نے بڑی دکانیں اپنے نام الاٹ کرالی تھیں۔ جو راجکوٹ کے کھاتے پیتے لوگ تھے وہ کراچی آکر کنگال ہوگئے تھے۔ راجکوٹ کے کئی سفید پوش گھرانوں کی خواتین لمبا گھونٹ نکال کر مختلف گھروں پر ماسی کا کام کرتی تھیں یعنی جھاڑو پوچا کرتی تھیں اور برتن مانجتی تھیں۔ برپٹ بیابانی جو کہ تیرہ چودہ برس کا ہو چکا تھا، آئے دن اپنے باپ سے الجھ پڑتا۔ ”راجکوٹ کے چور اچکے کراچی میں دندناتے پھر رہے ہیں تم ریفیوجی کیمپ میں پڑے پڑے سٹر جاؤ گے، باپو اٹھو کچھ کرو“۔
برپٹ کی باتوں سے گھبرا کر باپو ایک روز اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنی بساط کے مطابق ایویکیو پراپرٹی الاٹ کرنے والے دفتر کے چکر کاٹتا، شام کو تھک ہار کر واپس آجاتا۔ اس کی ہینگ اور پھٹکڑی وہیں کی وہیں رہ جاتی۔ تب ایک روز ایویکیو پراپرٹی الاٹمنٹ کرنے والے ایک بے انتہا موٹے افسر نے رحم کھا کر نیوچالی میں ایک مرہٹے کا دو کمروں کا گھر باپو کو الاٹ کر دیا۔ پوری فیملی کی بانچھیں کھل اٹھیں۔ باپو نے ایک کمرہ میں پنساری کی دکان کھولی اور دوسرے کمرے میں اس کا چھوٹا سا کنبہ رہنے لگا۔ برپٹ اسکول جانے لگا، وہ میٹرک میں تھا جب اسکول سے واپس آکر اس نے اپنے والد سے پوچھا تھا۔ ”باپو، تم جو راجکوٹ میں کہتے تھے کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہوں گی اور درختوں کی ٹہنیوں سے اشرفیاں اور نوٹ لٹکتے ہوں گے، تنا ہلانے سے اشرفیاں اور نوٹ ٹہنیوں سے جھڑنے لگتے ہوں گے،ایسے درخت کہاں ہیں باپو؟ دودھ اور شہد کی ندیاں کہاں ہیں باپو؟“
”یہ علامتی باتیں ہیں بیٹا!“ باپو نے برپٹ کو سمجھاتے ہوئے کہا”دودھ اور شہد کی ندیوں سے مراد ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہوگی، عدل اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔ درختوں پر لگے ہوئے نوٹ اور اشرفیوں سے مراد ہے کہ پاکستان ایک خوشحال ملک ہوگا،یہاں بسنے والا ہر شخص خوشحال ہوگا“۔ایس ایم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران برپٹ گم سم رہتا تھا۔ اکثر سوچتا رہتا تھا۔ عدل و انصاف سے اس کا یقین اٹھتا جارہا تھا۔ اس نے راجکوٹ کے اچکوں کو بے حد خوشحال اور دندناتے دیکھا تھا اور راجکوٹ کے شرفاء اور پڑھے لکھے لوگوں کو کراچی کے گلی کوچوں میں دھکے کھاتے دیکھا تھا۔ ایویکیو پراپرٹی الاٹمنٹ کے ادارے میں، اس نے رشوت اور اقرباء پروری دیکھی تھی اور وہ روح تک مایوس ہوگیا تھا۔
برپٹ بیابانی کراچی یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا جب مغربی پاکستان کے سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، چوہدریوں اور موقع پرستوں نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اور محاذ کا نام تھا ون یونٹ۔ مغربی پاکستان کے چار صوبوں سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرحد کے تاریخی اور جغرافیائی وجود کی نفی کرتے ہوئے ان کو ایک اکائی میں ضم کر کے مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کا متحدہ محاذ کھڑا کیا تھا، جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی گئی تھیں۔ ملک میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ تب پاکستان کو وجود میں آئے صرف سات برس ہوئے تھے۔ پاکستان کا کوئی آئین نہیں تھا، پاکستان کو آرڈیننسوں سے چلایا جارہا تھا۔ ون یونٹ کے خلاف بغاوت سے چلایا جارہا تھا۔ ون یونٹ کے خلاف بغاوت کو کچلنے کے لئے جنرل ایوب خان نے ملک پر قبضہ کر لیا اور مارشل لاء نافذ کردیا۔ تب پاکستان کو بنے ہوئے گیارہ برس گزرے تھے۔کراچی کے طالب علموں نے مارشل لا کو ماننے سے انکار کر دیا اور سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے جنرل ایوب کو للکارا۔ اس للکار میں جہاں شفیع، مسعود بھائی، سید صفوان اللہ، سید سعید حسن، معراج محمد خان، جوہر حسین، تاج حیدر اور فتحیاب علی خاں جیسے نامور طالب علم شامل تھے، وہاں برپٹ بیابانی اور مجھ جیسے گمنام اسٹوڈنٹس کی آواز بھی اس للکار میں شامل تھی۔ انہی دنوں میری شناسائی برپٹ بیابانی سے ہوئی تھی اور دھیرے دھیرے شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی تھی۔ انہی دنوں پاکستان چوک کے قریب پولیس سے تصادم کے دوران برپٹ بیابانی کے سر پر سیسہ پلائی لاٹھی پڑی تھی اور وہ چکرا کر گر پڑا تھا اور بے ہوش ہوگیا تھا۔ یہ قصہ ہے سن 1960ء کا۔ باون برس بے ہوش رہنے کے بعد برپٹ بیابانی کے ہوش میں آنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہماری بستی کے کونے کونے تک پھیل گئی۔یہاں ہم ایک ہفتہ کا چھوٹا سا وقفہ لیتے ہیں۔ ایک ہفتہ بعد میں آپ کو قصے کی دوسری قسط بتاؤں گا۔ اس قسط میں آپ سنیں گے برپٹ بیابانی کے ہوش میں آنے اور پھر بے ہوش ہوجانے کا قصہ۔
تازہ ترین