• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب طارق عزیز اور جناب احتشام ضمیر کے منصوبے اور جنرل پرویز مشرف کی خواہش کے برعکس 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کو انتخابات میں واضح اکثریت نہ مل سکی چنانچہ متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں کے دلوں میں بھی وزارت عظمیٰ کی خواہش انگڑائی لینے لگی ۔ احتشام ضمیر صاحب کے ضمیر کے دروازے پر دستک دے کر متحدہ مجلس عمل کے رہنما پرویز مشرف کی در تک بھی جاپہنچے۔ انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل کیالیکن انہوں نے ایم ایم اے کے غبارے میں صرف امریکہ کو ڈرانے کے لئے ہوا ڈالی تھی ‘ نہ کہ اسے پورے ملک کا حکمران بنانے کے لئے۔ چنانچہ انہوں نے غور کرنے کا کہہ کر ایم ایم اے کی قیادت کو ٹرخا دیا تاہم ایم ایم اے کی قیادت خواہشات کے گھوڑے کو قابو کرنے سے قاصر تھی اور احتشام ضمیر کے ساتھ رازونیاز کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں۔ انہی کوششوں کے سلسلے میں ایک روز احتشام ضمیر نے ایک خفیہ مقام پر رات کے کھانے کا اہتمام کیا تھا جس میں ایم ایم اے کے رہنما شریک تھے۔ یہاں کھانے کی میز پر ایک زیرک رہنما کی نظر احتشام ضمیر کے رکھی ہوئی دستاویزات پر پڑی۔ ان دستاویزات میں انہوں نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے رہنماؤں کی فہرست دیکھی ۔ اس میں اس مجوزہ نئی پارٹی کا نام ‘ منشور اور مجوزہ عہدیدار بھی تجویز کئے گئے۔ ایم ایم اے کے یہ زیرک رہنما سمجھ گئے کہ پیپلز پارٹی کے بندوں کو توڑ دیا گیا ہے اور اب ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے سرگوشی کے ذریعے یہ بری خبر کھانے میں شریک ایم ایم اے کے دیگر رہنماؤں کو بھی پہنچا دی اور حلوہ کھا کر جلد ازجلد نکل جانے کا مشورہ دیا۔ یہاں سے نکل کر ایم ایم اے کے رہنماؤں نے وزارت عظمیٰ کے حصول کی کوششیں ترک کردیں اور ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ احتشام ضمیر چونکہ صاحب کلام باپ کے صاحب قلم بیٹے ہیں‘ اس لئے الفاظ کے ساتھ کھیلنے کا فن جانتے ہیں چنانچہ روزنامہ جنگ کی خبر کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم مسلم لیگ(ق) یا ایم ایم اے کے خالق نہیں ہیں بلکہ یہ فقرہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ”2002ء کے انتخابات کے دن دھاندلی ہوئی اور نہ کسی کا مینڈیٹ چرایا گیا“۔ وہ درست فرماتے ہیں، انتخابات کے دن کچھ نہیں ہوابلکہ جو کچھ ہوا وہ انتخابات سے قبل اور اس کے بعد ہوا۔ مسلم لیگ (ق) کا قیام ‘ ایم ایم اے کی تشکیل ‘ بی اے کی ڈگری کی شرط اور مدارس کی ڈگری کو بی اے کے برابر تسلیم کرنا ‘ کتاب کا انتخابی نشان وغیرہ ۔ یہ تمام اقدامات انتخابات کے روز سے قبل اٹھائے گئے تھے جبکہ پیٹریاٹ کا قیام جیسے اقدامات بعد ازانتخاب اقدامات تھے۔ یوں جنرل صاحب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ انتخابات کے موقع پر کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ۔ قبل اور بعد ازانتخابات دھاندلی سے متعلق واقعات کی تفصیل تو بہت طویل ہے لیکن یہاں محض ایک اور واقعہ کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو سینیٹ کے انتخابات سے متعلق ہے ۔ 2002ء کے انتخابات میں چونکہ ساری عنایت ایم ایم اے پر کی گئی تھی‘ اس لئے اے این پی والوں کے بکسے خالی تھے اور خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں اے این پی کے ممبران کی تعداد اس قدر کم تھی کہ ان کے ایک سینیٹر کا بننا بھی مشکل تھا چنانچہ فرشتوں کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ اے این پی کی طرف سے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان جنرل نشست پر جبکہ الیاس احمد بلور ٹیکنوکریٹس کی نشست پر امیدوار تھے۔ تب فرید خان طوفان اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری تھے اور چونکہ وہ قومی احتساب بیورو کے شکنجے میں نہیں آئے تھے اس لئے تمام اہم معاملات کو وہ ڈیل کررہے تھے۔ سینیٹ کے انتخابات کا وقت قریب آیا اور جوڑ توڑ کا سلسلہ زور پکڑ گیا تو فرید طوفان اور اے این پی کے دیگر رہنماؤں کے شامی روڈ پشاور کے دورے بڑھ گئے۔ ایک روز میں نے فرید طوفان سے پوچھا کہ ایم پی ایز تو ایم پی اے ہاسٹل میں رہتے ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے سیاسی رہنما اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں لیکن آپ لوگ شامی روڈ آتے جاتے ہیں،آخر یہ کیا چکر ہے؟ فرید طوفان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ صافی صاحب !سمجھا کریں ۔ ہماری انتخابی مہم شامی روڈ سے ہی چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تو صرف آنا جانا ہی ہے، اصل کام تو انچارج بریگیڈئر صاحب کو کرنا ہے اور وہ وہاں سیف ہاؤس میں بیٹھتے ہیں۔
اصغر خان کیس میں فیصلہ دے کر سپریم کورٹ نے اتنا تو کرڈالا کہ ”رشوت دینے والوں“ کی نشاندہی کر ڈالی لیکن ”رشوت لینے والوں“ کی نشاندہی کا کام حکومت پر چھوڑ دیا۔ مہرتصدیق ثبت کردی کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے رشوت دی ہے لیکن ان کے لئے سزا خود تجویز کرنے کی بجائے یہ کام حکومت کے سپرد کردیا۔ حیران ہوں کہ جو حکومت خود سرتاپا کرپشن ہو‘ وہ دو جرنیلوں کو سزا کیوں کر دے سکے گی اور جو ایف آئی اے سپریم کورٹ کے نزدیک ڈاکٹر ارسلان کیس کی تحقیقات کی اہل نہیں ‘ وہ اس کیس میں کس طرح منصفانہ بنیادوں پر تحقیقات کرسکے گی؟ اس تناظر میں گزارش ہے کہ اب بات نکلی ہی ہے تو پھر اسے منطقی انجام تک پہنچا دیا جائے۔ جنرل اسد درانی نے تو آئی جے آئی کو جتوانے کے لئے رقم تقسیم کی ہے جبکہ ایک اور جنرل صاحب ہیں جن کے سینے پر آئی جے آئی کو بنانے کا تمغہ سجا ہوا ہے۔ وہ برملا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ آئی جے آئی کو بنانے کی سعادت انہوں نے حاصل کی۔ ان سے بھی پوچھا جائے کہ یہ ”نیک کام“ انہوں نے کیوں اور کس آئینی مینڈیٹ کے تحت سرانجام دیا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب میں تحریری اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے طارق عزیز کے ذریعے مسلم لیگ (ق) نامی سیاسی جماعت بنالی۔ ان سے بھی اس ”نیک کام“ کا حساب لیا جانا ضروری ہے ۔ خود اصغر خان صاحب پر الزام ہے کہ انہوں نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جنرل محمد ضیاء الحق کو ترغیب دی اور اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کو جنر ل ضیاء کی طرف سے اطمینان دلایا کہ وہ نوّے دن کے اندر انتخابات منعقد کریں گے۔ ان سے بھی پوچھنا ضروری ہے کہ یہ کام انہوں نے آئین کی کس شق کے تحت کیا۔ اسی طرح ان دنوں ایک نوخیز جماعت کے بارے میں الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کا حالیہ نیا جنم ایک جنرل صاحب کی عنایتوں کا مرہون منت ہے،اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی سیاست میں صرف پاکستانی ایجنسیوں کا نہیں بلکہ غیرملکی ایجنسیوں کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ تو کیا ایران اور عرب ممالک کا بھی پاکستانی سیاست میں کلیدی رول ہوتا ہے ۔ اس غیرملکی مداخلت سے متعلق بھی حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ان معاملات پر عدالتوں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک ایسا قومی کمیشن قائم کیا جائے جو سیاست میں تمام اندرونی اور بیرونی مداخلتوں کا جائزہ لے کر آئین سے انحراف کرنے والوں کے لئے سزا تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا میکینزم بھی بنادے کہ جو آئندہ سیاست میں اندرونی اور بیرونی مداخلتوں کا راستہ روک سکے۔
تازہ ترین