• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اعتبار سے یہ لمحہ تاریخی ہے کہ قومی اسمبلی تیسری بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے، مگر دل وسوسوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور بے یقینی کی دھند گہری ہوتی جا رہی ہے۔ وہ معاملات جو بروقت نہایت خوبی سے طے کیے جا سکتے تھے، انہیں اس طرح اُلجھا دیا گیا ہے کہ اُمید کا دامن بار بار ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے۔ تمام سیاسی قائدین کو معلوم تھا کہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت 31مئی 2018ء کو ختم ہو رہی ہے، لہٰذا نگران وزیراعظم کا انتخاب اس سے پہلے ہو جانا چاہیے جس کا طریقِ کار دستور میں صراحت سے درج ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اعلان کیا کہ اس بار ہمارے درمیان ہی نگران وزیراعظم پر اتفاقِ رائے ہو جائے گا اور ہم یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی یا الیکشن کمیشن تک نہیں جانے دیں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چار ملاقاتیں بھی کیں اور یہ تاثر بھی دیا کہ ہمارا اتفاقِ رائے ہو چکا ہے، نام صیغۂ راز میں رکھا جا رہا ہے جس کا 22مئی کی ملاقات کے بعد اعلان کر دیا جائے گا۔ وہ 22مئی کو ملے اور چالیس منٹ تک تبادلہ خیال کرتے رہے، لیکن توقعات کے برعکس وہ کسی ایک نام پر اتفاق نہ کر سکے۔ بیشتر تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ معاملہ بہت اُلجھ گیا ہے اور اتفاقِ رائے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہوا اَور آئندہ کیا ہونے والا ہے، آج یہی سوال ہر جگہ زیرِ بحث ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے سب سے پہلے تین نام دیے جن کو سنجیدہ طبقوں نے پسند کیا۔ ان میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور معروف صنعت کار رزاق داؤد کے نامِ گرامی تھے۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے جو نام دیے گئے، ان میں سابق چیف جسٹس جناب ناصر الملک، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر کے علاوہ جسٹس تصدق حسین کا اسمِ گرامی شامل تھا۔ جناب آصف زرداری نے چار ایسے نام دیے جو معاملے میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہیں۔ ایک نام ذکاء اشرف کا دیا جو اُن کی پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رُکن بھی ہیں۔ تین نام ایک ہی خاندان کے تھے جو آپس میں کزن ہیں۔ اس طرح ایک نوع کا ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا اور تشویش بھی گہری ہوتی جا رہی ہے کہ یہ سارا ماجرا کیا ہے۔ سیاسی قائدین کو نگران وزیراعظم کے طور پر ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہیے جو حکومت کے روزمرہ کے معاملات مستعدی سے چلا سکے، انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کو انتظامی امداد فراہم کرے اور انتخابات کو بیرونی طاقتوں کے اثرات سے بھی محفوظ رکھ پائے۔ گزشتہ امریکی انتخابات میں روس نے جو کردار اَدا کیا، اس کی روشنی میں پاکستان کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔
اِن بنیادی تقاضوں کے پیشِ نظر ایسے افراد کو ترجیح دینی چاہیے جو اعلیٰ منتظم ہوں اور غیر جانبداری قائم رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو نام اب تک سامنے آئے ہیں، ان میں جناب عشرت حسین موزوں شخص معلوم ہوتے ہیں کہ انہوں نے گورننس پر تحقیقی کام بھی کیا اور اُن کے اندر انتظامی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ محترم رزاق داؤد نے جنرل مشرف کی کابینہ میں وزیرِ تجارت کے طور پر کام کیا اور انہوں نے بیرونی تجارت کا پورا ڈھانچہ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ شفاف انتخابات کی اہمیت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ سیاسی قیادتوں کو اپنے کسی ایجنڈے کے بغیر نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کا انتخاب قومی مفادات کے تحت کرنا اور عوام کے اندر اعتماد کی ایک نئی روح پھونکنا ہو گی۔
قوم سیاسی طور پر ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دباؤ کے تحت سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون اور تحریک ِانصاف کے اندر سنگین نفسیاتی اور انتظامی عوارض پیدا ہو رہے ہیں۔ عمران خاں اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ اُن کا وزیراعظم بن جانا طے پا گیا ہے، مگر اُنہیں یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس وقت جو پرندے ان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں، وہ کسی اور طرف بھی آ جا سکتے ہیں۔ اس غیر فطری عمل کا نتیجہ تحریکِ انصاف کی کورکمیٹی میں نمودار ہوا جس میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ایک دوسرے کے مد ِمقابل آن کھڑے ہوئے اور پارٹی کی داخلی کمزوریاں کھل کر سامنے آ گئیں۔ وہ لوگ جو یہ کھیل کھیل رہے ہیں، وہ ملک، جمہوریت اور اداروں کے ساتھ بدترین دشمنی کر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف جو احتساب عدالت میں مقدمات بھگت رہے ہیں، اُنہوں نے عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایسے ایسے سوالات اُٹھائے ہیں جن کا متعلقہ اداروں کو ایک روز جواب دینا ہو گا۔ وہ اس وقت ایک خاص ذہنی کیفیت میں ہیں اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ تمام راز اُگل دینا چاہتے ہیں جن سے سول ملٹری تعلقات کی پُراسرار تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ انہوں نے عوام کی عدالت میں اپنا کیس جس خود اعتمادی اور پُرتاثیر لہجے میں پیش کیا، اس نے سازِ دل پر مضراب کا کام کیا ہے۔ اُن کی جماعت اس وقت مختلف اطراف سے آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے، لیکن اس کی قوتِ مزاحمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ عوام سویلین بالادستی کی تحریک میں اس کے ساتھ ہیں۔
الفاظ کی گھن گرج اِن دنوں بہت سنائی دے رہی ہے اور سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر الزامات کے بم چلا رہے ہیں۔ اداروں کے مابین کشمکش اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، تاہم اس گہری دھند کے عقب میں ایسے واقعات بھی جنم لے رہے ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خبر آئی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ پاک بھارت تنازعات کے حل میں مدد فراہم کر سکتے ہیں اور اُنہیں دہلی آنے کی دعوت دینی اور اُن سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ وہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ’را‘ کے سربراہ تھے۔ اُنہوں نے پاکستان میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کے ساتھ مل کر حال ہی میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں تنازع جموں و کشمیر پر بھی ایک باب میں اس مسئلے کے حل کی حکمتِ عملی پر بحث شامل ہے۔ اس پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے سنجیدہ طبقے تنازعات کے حل میں پاکستانی فوج کے مرکزی کردار کو اہمیت دینے اور پاکستان کی طرف سے امن و سلامتی کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ اس احساس کے فروغ پانے سے ہمارے خطے کے اندر ایک بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے آنے والی منتخب حکومت کو اپنی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی اس طرح وضع کرنا ہو گی کہ ڈپلومیسی کو پوری طرح بہترین دماغوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا رہے، ہمسایہ ملکوں میں عوام کے درمیان رابطے فروغ پائیں اور ملکی استحکام ترقی پذیر ہو۔ دراصل تمام سیاسی، دفاعی اور علمی ادارے مل کر عالمی برادری میں پاکستان کے بلند مقام کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین