• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ والی صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ انہیں ابھی سے یقین ہے کہ وہ اس بارضرور وزیراعظم بن جائیں گے ۔انہیں پروا نہیں ہے کہ عوامی سروے کیا کہہ رہے ہیں اور وہ مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا مقامی یا بین الاقوامی سروے سامنے نہیں آیا جس نے تحریک انصاف کو سب سیاسی جماعتوں سے انتخابی برتری دی ہو ۔تمام کے تمام عوامی اندازے ان کی سب سے بڑی مخالف ن لیگ کی سبقت ہی ظاہر کر رہے ہیں ۔عمران خان کا خیال ہے کہ دراصل انہوں نے اپنی مقبولیت کی وجہ سے 2013کاالیکشن بھی جیتنا تھا مگر انہیں ایک منصوبے کے تحت ہرایا گیا اور ن لیگ کو جتوایا گیا جبکہ اس بار وہ اپنے ساتھ کوئی ’’ہاتھ ‘‘نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اب انہیں کافی تجربہ حاصل ہو گیا ہے۔ ہر انتخابی دنگل سے قبل ایک خاص قسم کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں جماعت اس بار جیت جائے گی۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے بہت سے ’’الیکٹ ایبلز ‘‘ اسی پارٹی میں شامل کرائے جاتے ہیں۔ اس بار ن لیگ سے خصوصاً پنجاب میں ابھی تک کوئی ایک درجن سے زیادہ ایم این ایز اور 3درجن کے لگ بھگ ایم پی ایز تحریک انصاف میں ایسی ہی فضا پیدا کرنے کے لئے شامل کرائے گئے ہیں۔ اگر ان تمام حضرات کے ماضی پر غور کیا جائے تو ان میں سے ہر کوئی ہر جنرل الیکشن سے قبل وفا داری تبدیل کرتا رہاہے اور اگر یہ آزاد منتخب ہوتے رہے ہیں تو پھر اس جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں جوکہ حکومت بنانے والی ہوتی ہے۔ ابھی تک ن لیگ کی ’’ہاڈ کور ‘‘سے کسی بھی الیکٹ ایبل نے اسے خدا حافظ نہیں کہا ۔باوجود اس کے کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں ن لیگ کی طرف سے کچھ ’’گینز ‘‘ ہوئے ہیں اس کی سندھ اور بلوچستان میں حالت اسی طرح ہی پتلی ہے جیسے کہ پہلے تھی اور ان صوبوں سے شاید ہی اس کا کوئی امیدوار ایم این اے یا ایم پی اے بن سکے۔ خیبر پختونخوا میں ملی جلی صورتحال ہے اور یہاں کوئی ایسا ماحول نہ ہی پیدا ہوا اور نہ ہی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف انتخابات جیتنے والی ہے۔ ساری توجہ کا مرکز صرف اور صرف پنجاب ہے تاکہ ن لیگ کا دھڑن تختہ کیا جاسکے ۔یقیناً عمران خان اور ان کی حامی قوتیں یہ تاثر پیدا کر رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے لئے حالات بہت سازگار ہیں مگر ابھی تک کوئی ایسی عوامی ’’ویو‘‘نہیں چلی اور تحریک انصاف کا ’’بیانیہ ‘‘اس قدر نہیں بکا کہ ووٹر یہ کہنا شروع کردیں کہ اس بار تو عمران خان آیا ہی آیا۔
اپنے تئیں عمران خان کو اس بار اس قدر وزیراعظم بننے کا یقین ہے کہ انہوں نے اب تو اپنی حکومت کے پہلے 100دن کا پلان بھی دے دیا ہے حالانکہ بنیادی طور پر اس کا مقصد بھی اسی ’’ہویے‘‘کو ہی مضبوط بنانا ہے کہ وہ اب انتخابات جیتنے والے ہیں۔چونکہ بلوچستان اور سندھ میں تحریک انصاف نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا ان صوبوں سے اسے آئندہ الیکشن میں شاید ہی کوئی کامیابی ہو سکے۔ ابھی تک کی صورتحال بتا رہی ہے اور تحریک انصاف کے بہت سے لیڈرز خود بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان خیبر پختونخوامیں الیکشن سویپ کرنے نہیں جارہا اور یہاں سے ملے جلے انتخابی نتائج آئیں گے۔ اس کے بعد بچتا پنجاب ہی ہے جہاں سے عمران خان کو لینڈ سلائیڈ چاہئے مگر نہ تو کوئی سیاسی رہنما جس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو کہہ رہا ہے اور نہ ہی کوئی عوامی سروے یہ بتا رہا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف ن لیگ کو شکست دے دے گی ۔ابھی بھی ن لیگ تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کم ازکم پنجاب میں سب سے آگے ہے اورمعزول وزیراعظم نوازشریف کا بیانیہ مقبول ہے۔ اس کے بعد صرف ایک ہی فارمولا بچتا ہے جس کو استعمال کر کے عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں اور وہ وہی ہے کہ مختلف جماعتوں،گروپوں اور آزاد منتخب ارکان کو ملا کر ایک کولیشن بنائی جائے۔ اس الائنس میں ہر جماعت شامل ہو سوائے ن لیگ کے ۔ایسا وزیراعظم چاہے عمران خان بن جائیں یا کوئی اور وہ کوئی ’’سنجرانی ‘‘یا ’’بزنجو‘‘ ہی ہو گا جس کی نہ تو کوئی اپنی پالیسی ہو گی ٗ نہ ہی کوئی وژن اور نہ ہی وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا ہاں البتہ اس پر لیبل وزیراعظم کا ہی لگے گا۔ یقیناً عمران خان صرف ٹائٹل کے لئے وزیراعظم تو نہیں بننا چاہتے کیونکہ ان کا نصب العین تو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا ہے جو کہ ایک بے اختیاراور بے بس سربراہ حکومت نہیں بنا سکتا۔ جس طرح تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے سینیٹ کے الیکشن میں تعاون کر کے ن لیگ کا چیئرمین نہیں بننے دیا تھا اسی طرح کااتحاد ان دونوں جماعتوں کو عام انتخابات کے بعد کرنا پڑے گا اور وہ کریں گی کہ وہ کس طرح ن لیگ کو وفاق اور پنجاب میں حکومت نہ بنانے دیں ۔
ایک عرصہ سے ’’ہنگ‘‘پارلیمان کی بات چل رہی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ایک کمزور کولیشن حکومت بنانا ہے جس سے کچھ وقتی مقاصد تو حاصل ہو سکتے ہیں مگر نہ تو اس سے ملک کی کوئی خدمت ہوگی ہے اور نہ ہی جمہوریت اور سیاست مضبوط ہو گی یہاں تک کہ ملک کا سب سے بڑا لیڈر یعنی وزیراعظم بھی ایک ڈمی سے کم نہیں ہوگا۔ انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں فیصلہ کن رول حال ہی میں بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی، پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاک سرزمین پارٹی اور آزاد ارکان کا ہو گا اور جس کے پلڑے میں ان کا ووٹ پڑے گا وہ وزیراعظم بن جائے گا۔ یہ تمام مل کر ن لیگ کا پتہ صاف تو کر سکتے ہیں لیکن اگر نوازشریف نے پنجاب سے اپنی توقع کے مطابق انتخابی نتائج حاصل کر لئے یعنی وہ سوئپ کر گئے تو پھر یہ تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ ان تمام جماعتوں اور گروپوں کی فرسٹ چوائس عمران خان ہوں گے یا کہ کوئی دوسرا جو کہ ان میں سے ہو ۔ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے 2002کے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی خصوصاً پری پول ریگنگ کی تھی مگر پھر بھی ان کی جماعت یعنی ق لیگ اتنی اکثریت نہیں حاصل کر سکی تھی کہ وہ اپنا وزیراعظم منتخب کر سکے۔ بالآخر پیپلزپارٹی میں سے پیٹریاٹ تلاش کر کے ایک گروپ بنایا گیا جس نے ق لیگ کی حمایت کی اور صرف ایک ووٹ سے میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے ۔ان انتخابات کے وقت بے نظیر بھٹو اور نوازشریف جلاوطن تھے۔ ان کے بیرون ملک ہونے اور انتہائی سخت پابندیوں اور مشکلات کے باوجود پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے کافی اچھے انتخابی نتائج حاصل کئے تھے۔
اب نہ تو 2002ہے اور نہ ہی ان دونوں سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ جلا وطن ہے۔ پیپلزپارٹی کو تو اس وقت کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے اور وہ آزادانہ انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ اس کی سندھ میں پوزیشن پہلے کی طرح بہت اچھی ہے لیکن پنجاب اور دوسرے علاقوں میں اس کی حالت 2013کی طرح بڑی پتلی ہے۔ ن لیگ کو انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ اسے 28جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی طرف سے نوازشریف کی نااہلی کے بعد سخت مشکلات کا شکار ہے، نیب بھر پور حملہ آور ہے ، اسے توڑنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ،سابق وزیراعظم کا زیادہ وقت عدالتی پیشیاں بھگتنے میں لگ رہاہے لیکن ان تمام اقدامات نے اس کے لئے عوامی سطح پر اس کی مدد ہی کی ہے جس کی وجہ سے اس کی پوزیشن آج 2013کے مقابلے میں بہتر ہے۔ اب جبکہ عمران خان اب یا کبھی نہیں والی صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ موقع مس نہیں کرنا چاہتے کہ وہ وزیراعظم نہ بن سکیں تو انہیں ایک ہی سوال کا سامنا ہے کہ کیا ان کے 5سال کے بھر پور کمپین جس میں دھرنے، لاک ڈائون، تشدد اور ماردھاڑ شامل رہا کے بعد وہ 2018کے الیکشن میں جانے سے قبل 2013کے انتخابات میں جانے سے پہلے زیادہ مقبول ہیں ۔ہمارے خیال میں جواب منفی میں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین