• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی، فاٹا انضمام بل منظور، ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس، صدر، گورنر کے خصوصی اختیارات، ایف سی آر ختم، کے پی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی، اضافی فنڈز ملیں گے

قومی اسمبلی، فاٹا انضمام بل منظور، ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس، صدر، گورنر کے خصوصی اختیارات، ایف سی آر ختم، کے پی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی، اضافی فنڈز ملیں گے

اسلام آباد(ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی ہے‘بل کی حمایت میں 229 جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ پڑا ، جو تحریک انصاف کے داور کنڈی نے دیا‘بل کی منظوری کیلئے 228ووٹ درکار تھے ‘ایک ووٹ زیادہ ملا ‘ یوں یہ بل ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس ہوگیا‘جے یو آئی (ف) اور پختونخوا میپ کا احتجاج،رائے شماری کا بائیکاٹ ، دونوں جماعتوں کے ارکان نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑیں‘بل کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کی 16 عام ‘ 4 خواتین اور اقلیتوں کے لئے ایک نشست مختص کی گئی ہے‘ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن عام انتخابات 2018ء کے بعد ایک سال کے اندر کرایا جائے گا‘حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں موجود نہیں تھے اور دونوں جماعتوں کے ارکان ‘داورکنڈی اورفاٹاکے رکن ہلال الرحمن نے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی جبکہ پیپلزپارٹی ‘تحریک انصاف اور اے این پی نے بل کی حمایت کی ‘بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے ۔ بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ سالانہ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب (دس کھرب)روپے کا خصوصی ترقیاتی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔بل کی منظوری کے بعدایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہناتھاکہ قومی اسمبلی میں فاٹا کے حوالے سے قومی اتفاق رائے انتہائی خوش آئند ہے‘ آج قومی اسمبلی نے تاریخی بل پاس کیا ہے اس کے نتایج مثبت ہوں گے۔بل کی منظوری کیلئے حمایت کرنے پر اپوزیشن ارکان کا شکرگزار ہوں‘ انہوں نے کہاکہ ہم فاٹا کے عوام کا اعتماد حاصل کریں گے‘فاٹا کے عوام کو وہی سہولیات دینا چاہتے ہیں جو ملک کے باقی عوام کو حاصل ہیں‘ ہمارا مقصد قبائلی علاقوں کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور یہی ہمارا رہنما اصول رہے گا۔دریں اثناءقومی اسمبلی نے مشترکہ میری ٹائم معلوماتی تنظیم بل 2018ء،قرضہ جات برائے زرعی‘ تجارتی و صنعتی اغراض (ترمیمی) بل 2017ء، ایس بی پی بنکنگ سروسز کارپوریشن آرڈیننس 2001ءمیں مزید ترمیم،سرمایہ کاری کارپوریشن پاکستان تنسیخ بل 2018ءاوربنکوں کا قومیانا (ترمیمی) بل 2018ءکی منظوری دے دی۔ جمعرات کو وزیر قانون محمود بشیر ورک نے دستور 31ویں ترمیم بل 2018ءکو زیر غور لانے کی تحریک ایوان میں پیش کی ۔قومی اسمبلی نے بل کو زیر غور لانے کی تحریک کی منظوری دے دی۔ اس طرح پہلی خواندگی کا عمل مکمل ہونے پر اسپیکر نے یکے بعد دیگرے بل کی تمام شقوں کی منظوری حاصل کرنے سے قبل ہال کے داخلی راستوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح بل کی مختلف شقوں کے حق اور مخالفت میں ارکان کو باری باری کھڑا کرکے رائے حاصل کی۔ بل کی بعض شقوں کے حق میں 229 ‘ 230 اور 231 ارکان نے جبکہ بل کی مخالفت میں 11 ‘ 3 اور ایک ارکان نے یکے بعد دیگرے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر قانون نے تیسری خواندگی کے طور پر جب بل کو منظور کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کی تو اسپیکر کے حکم پر ایوان کے داخلی راستے بند کردیئے گئے اورا سپیکر نے ارکان کو ہدایت کی کہ بل اوپن ڈویژن کے ذریعے منظور کیا جائے گا جس کے لئے بل کے حق میں رائے دینے والے ارکان ان کے دائیں جانب موجود لابی میں جائیں گے اور بل کی مخالفت میں رائے کا اظہار کرنے والے ارکان ان کی بائیں جانب لابی میں جائیں گے۔ اس کے بعدا سپیکر کے کہنے پر تمام ارکان باری باری اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئےا سپیکر کے دائیں جانب اور بائیں جانب قائم لابیوں میں گئے۔ رائے شماری کا عمل مکمل ہونے پر سپیکر نے اعلان کیا کہ بل کے حق میں مجموعی طور پر 229 ارکان نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جبکہ مخالفت میں صرف ایک ووٹ آیا ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی نے دو تہائی اکثریت سے فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیا۔ فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم 2018ءکے نام سے موسوم بل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 1 ‘ آرٹیکل51‘ آرٹیکل 59‘ آرٹیکل 62‘ آرٹیکل 106‘ آرٹیکل 155 ‘ آرٹیکل 246 اور آرٹیکل 247 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ آرٹیکل 51 میں کی گئی ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 342 کی بجائے 326 ہو جائے گی۔ بل کے تحت فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بل کے تحت فاٹا کو 16 عام نشستیں ‘ خواتین کی چار مخصوص نشستیں اور ایک غیر مسلم نشست فراہم کی گئی ہے مگر شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ مذکورہ بالا نشستوں پر 2018ءکے عام انتخابات کے بعد ایک سال کے اندر منعقد کئے جائیں گے جبکہ فاٹا کی قومی اسمبلی اورسینیٹ کی موجودہ نشستیں قومی اسمبلی کی تحلیل تک برقرار رہیں گی جس کے بعد یہ شق حذف تصور کی جائے گی۔ بل کی مخالفت کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان نے کہا کہ ہم کہتے ہیں فاٹا کے عوام کی رائے کو عزت دو۔ اس بل میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جارہا۔ یہ صرف فاٹا نہیں بلکہ پاٹا پر بھی لاگو ہو رہا ہے۔ ہلال الرحمان نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انضمام نہیں اصلاحات مانگی تھیں۔ آج اصلاحات پیچھے چلی گئی ہیں اور انضمام پر سب کا زور ہے ۔ عمران خان نے جنوبی پنجاب کے لئے صوبے کی بات کی ہے۔ انہیں فاٹا کو 100 دن کے پیکج میں شامل کرنا چاہیے جس کی ایک الگ حیثیت موجود ہے۔ فاٹا کے زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ فاٹا کو الگ صوبہ یا تشخص دیا جائے۔ تحریک انصاف کے داور کنڈی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو انضمام کی بجائے نیا صوبہ بنایا جائے۔ بل کی شاہدہ اختر علی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے عبدالقہار ودان نے بھی مخالفت کی۔

تازہ ترین