• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف اور پرویز مشرف کے مقدمات

اب جب کہ معزول وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم کا مقدمہ اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، اپنے نااہل قرار دیئے جانے کا نواز شریف نے ایک خبری تنازع تخلیق کیا اور کہا کہ ان کے ہٹانے اور مقدمہ قائم کئے جانے کا تعلق جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل6 کے تحت انتہائی غداری کا مقدمہ قائم کئے جانے سے ہے۔ ان کا یہ اشارہ سیاسی اور فوجی تعلقات میں عدم توازن کی جانب تھا۔ یہ عدم توازن جو پاکستان کی اقتدار کے لئے سیاست کا حصہ رہا اور اب بھی اس کے علامات دکھائی دیتے ہیں۔ جب نواز شریف سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے اور دبائو کی بات کرتے ہیں تو وہی دھرنے کا بحران نمٹانے کے لئے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو اس وقت مدعو کرنے کے ذمہ دار تھے۔ عمران خان اور طاہرالقادری سے ملاقاتوں کے بعد راحیل شریف نے نواز شریف پر مستعفی ہونے کے لئے دبائو ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی قوتیں بالغ نظری کے فقدان کے باعث پارلیمنٹ ہی کے اندر تنازعات کے حل میں ناکام رہیں۔ ایسا پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی ہوا تھا جب2009ء میں نواز شریف کے لانگ مارچ میں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو ضامن بننے کے لئے کہا گیا تھا۔ نواز شریف اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے درمیان تنازع1998ء سے چلا آ رہا تھا جو 1999ء میں سنگین شکل اختیار کر گیا۔ اسی سال12 اکتوبر کو نوازشریف کی حکومت معزول کر دی گئی بعدازاں نواز شریف کو سزا ہوئی۔ 2000ء تا 2007ء انہیں جلاوطن کیا گیا۔ نواز شریف کے تیسری بار برسراقتدار آنے پر جنرل (ر) پرویز مشرف کو انتہائی غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جو آئین کے آرٹیکل۔6 کے تحت اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا۔ پرویز مشرف عملی طور پر جلاوطنی کے تحت دبئی میں رہ رہے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے بچوں کو ایون فیلڈ ریفرنس کے تحت نیب احتساب عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے جو آئندہ چند ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا۔ پرویز مشرف کی نواز شریف کے مقابلے میں یقیناً قسمت اچھی ہے وہ یہ دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کے سیاسی حریف کو 18 سال میں دوسری بار سزا ہونے جا رہی ہے۔ نواز شریف پہلے ہی تاحیات سیاست کے لئے نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں جب کہ پرویز مشرف کو دبئی سے اپنی واپسی سے قبل عبوری دور حکومت میں فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ آئین کے آرٹیکل۔6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ جہاں2013ء سے زیرالتوا ہے، نواز شریف پر مقدمہ بڑی سرعت سے چلا اور اب کسی بھی وقت نمٹایا جا سکتا ہے۔ احتساب عدالت سے سزا کی صورت میں انہیں14سال قید ہو سکتی ہے جو عمر قید کے مترادف ہے جب کہ ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے انجام کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ تاخیر ہی سے سہی اکتوبر1999ء کے بعد کے سیاسی حالات اور واقعات کا جائزہ لینا اب بھی بڑا اہم ہے۔ نواز شریف کے پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کے حوالے سے پہلے ’’باقاعدہ انکشاف‘‘ سے کہاں تک انہیں سیاسی حمایت ملے گی، انہیں اپریل2016ء (پاناما لیکس) کے بعد سے اپنے سیاسی اقدامات کے حوالے سے مطمئن کرنے کی اب بھی ضرورت ہے تاہم اس بات کا جائزہ لینا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ پرویز مشرف کو اپنے خلاف زیرالتوا مقدمات میں کتنا ریلیف ملا؟ جن میں آرٹیکل۔6 کے تحت انتہائی غداری، اکبر بگٹی قتل کیس اور لال مسجد کیس شامل ہیں، اس موازنے میں عدم توازن تلاش کرنا مشکل نہ ہو گا۔ پرویز مشرف نے اس وقت تاریخ رقم کی جب وہ ایک مقدمے میں ایک بار بھی حاضر ہوئے بغیر بری ہو گئے جب کہ انہیں عدالتی حکم پر علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالا گیا۔ اب سابق آمر کہتے ہیں کہ وہ اپنی وطن واپسی کا خود فیصلہ کریں گے۔وہ نگراں حکومت کے دور میں واپس آسکتے ہیں۔ لہٰذا حتمی طور پر ان کی قسمت اچھی ہے۔ اب بھی نواز شریف کے مقابلے میں وہ طاقتور ہیں۔ معزول وزیراعظم کو تو پارٹی عہدہ رکھنے سے روک دیا گیا ہے جب کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے بدستور صدر ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ پشاور میں ایک عدالت کے تحت تاحیات نااہل قرار دیئے جانے میں انہیں ریلیف مل جائے گا۔ سیاست کے ایک طالب علم کے بطور مورخ ان واقعات کو بھی دیکھے گا جو نواز شریف کی جانب سے بطور وزیراعظم جنرل (ر) پرویز مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے برطرف کرنے کے بعد پیش آئے۔ ردعمل میں ان کی حکومت گئی اور ملک میں9 سال آمریت رہی۔ پرویز مشرف خود کو ریلیف دینے میں راحیل شریف کے کردار کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اگر نواز شریف2014ء ہی میں یہ بتا دیتے جو انہوں نے اب انکشاف کیا۔ تحریک انصاف کو چھوڑ کر پوری پارلیمنٹ ان کی پشت پر تھی۔ آج کے مقابلے میں ان کا سیاسی بیانیہ اس وقت زیادہ مضبوط ہوتا۔ پاناما اسکینڈل کے بعد کے سیاسی اور قانونی اقدامات میں نواز شریف نے خود اپنے آپ کو ضرب لگائی۔ اگر وہ اپنے خلاف جے آئی ٹی یا مقدمہ کا بائیکاٹ کر دیتے تو اپنے موجودہ سیاسی بیانیہ کے تحت بہتر پوزیشن میں ہوتے لیکن کیا اس سے پرویز مشرف کو اپنے خلاف مقدمات میں سہولت ساقط ہو جاتی؟ پرویز مشرف کے12 اکتوبر1999ء کا کوئی جواز نہ تھا۔ اب یہ تاریخ کا موضوع ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے قریبی معاونین کو اپنی برطرفی کی صورت میں نواز شریف کے احکامات تسلیم نہ کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ 12 اکتوبر1999ء کو بغاوت کے بعد پرویز مشرف کے پاس حکومت چلانے کے لئے کوئی قانونی منصب یا دفتر نہ تھا لہٰذا قوم سے ان کے پہلے نشریاتی خطاب کے موقع پر قومی ترانہ بھی نہیں بجایا گیا لیکن چونکہ قسمت سے وہ اقتدار پر قابض تھے انہوں نے نہ صرف نواز شریف پر طیارہ اغوا کرنے کا کیس قائم کیا بلکہ ظفر علی شاہ کیس میں اپنے فوجی اقدام پر سپریم کورٹ سے قانونی تحفظ بھی حاصل کیا۔ بعدازاں2002ء میں پارلیمنٹ سے اپنی حکومت کے لئے قانونی تحفظ بھی حاصل کر لیا۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے انقلاب برپا کیا لیکن مقدمہ نواز شریف پر بنا اور انہیں سزا ہوئی۔ اگر سعودی ولی عہد مداخلت نہ کرتے تو کون جانتا ہے ہم پھانسی چڑھنے والا کوئی دوسرا ہی وزیراعظم دیکھتے لہٰذا گزشتہ18 سال سے قسمت پرویز مشرف پر مہربان ہے۔ اول تو انہوں نے سپریم کورٹ، ایل ایف اور سترہویں آئینی ترمیم کے تحت ملک پر 9 سال حکومت کی۔ اب3 نومبر2007ء کو ایمرجنسی لگا کر کسی آئینی اور سیاسی تحفظ کے بغیر وہ دبئی میں بیٹھے اور 2013ء سے ان کے خلاف اہم اور سنگین مقدمات التوا میں پڑے ہیں۔ اسی طرح دیگر مقدمات بھی ختم نہیں ہوئے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقدمہ کس طرح قائم ہوا، نواز شریف اور حکومت کو کس طرح پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جب غیر سرکاری فورسز نے سابق صدر اسپتال منتقل کئے گئے۔ پرویز مشرف کو باہر بھیجنے پر مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو مورد الزام ٹھہرانے پر تو بحث ہو سکتی ہے حتیٰ کہ نواز شریف کے مخالفین تک پرویز مشرف کے اسلام آباد سے دبئی تک کے سفر کا حال جانتے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف2000ء میں کولمبو سے پرویز مشرف کو لے کر پاکستان آنے والے طیارے کے اغوا کا حیران کن مقدمہ قائم ہوا۔ عدالت نے مشرف کا مقدمہ تک ریکارڈ نہیں کیا اور نواز شریف سزائے موت سے بچ گئے تھے۔ نواز شریف جہاں اپنی سیاسی حماقتوں کے خود ہی ذمہ دار ہیں لیکن جنرل (ر) اسلم بیگ ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور نواز شریف کے خلاف مقدمات کی رفتار میں عدم توازن ہے۔

تازہ ترین