• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کعبة اللہ پر پہلی نظرپڑی تو دل کی حالت عجیب ہوئی۔ سنہری حروف سے سجا بلالی رنگ کا غلاف ِ کعبہ ایک بڑی سی سکرین میں بد ل گیا اور اس پر بندہٴ عاصی کی حیات مستعار کی فلم چلنے لگی۔ زندگی بھر جو کیا، جو کہا، جو کھویا، جو پایا، قول و فعل کی مکمل بیلنس شیٹ پردہ سکرین پر نمودارہوئی اور بے حال کرگئی۔ شرمندگی اور جوابدہی کے احساس میں تاب نظارہ اور مجال سخن کہاں؟
تب اشک ِ ندامت کام آئے۔ آنکھوں میں آمڈنے والے آنسوؤں کے سیلاب نے پردہ سکرین کو اوجھل کر دیا ور بوجھل دل میں سلگنے والی پشیمانی، بیچارگی، مایوسی اور احساس جرم کی آگ پر پانی پڑ گیا۔ تب ناتواں ہاتھ دعا کے لئے اٹھے اور پھراپنے لئے، اپنے خاندن کے لئے، عزیز و اقارب اور شناساؤں کے لئے وہ کچھ مانگنے کا حوصلہ ہوا جوپہلے کبھی نہ تو ذہن میں آیا نہ زبان پر۔ رحمت رب نے منگتے کو جری کر دیا اتنا کہ اسے اپنے کریم کے وسیع و عریض دامن رحمت کے سامنے اپنی لغزشیں حقیر، کوتاہ اور ناقابل شمار لگیں۔
چھوٹے نہ گناہ مجھ سے، چھوڑا نہ کرم اس نے
بندہ ہو تو ایسا ہو، مولا ہو تو ایسا ہو
طواف ِ کعبہ اور سعی صفا و مروہ کے دوران میں انسانوں کے ایک ایسے سمندر میں کود گیا جس کی لہریں مسجد الحرام کے کناروں سے باہر اچھل رہی ہیں۔ اب میں ایک پاکستانی اور ایشیائی باشندہ نہیں ایک عالمگیر اسلامی برادری کاحصہ ہوں جس میں ہر رنگ، نسل، زبان، لباس ، ملک، خطے اور براعظم کے باسی اپنی شناخت مٹا کرجسد ِواحد بن چکے ہیں۔ سفید براق احرام میں سب مساوی اوریکساں ہیں۔ تمیز بندہ و آقا مٹ چکی ہے۔ سب اپنی اپنی بولیاں بھول کر ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔ ایک ہی طرح کے کلمات ادا کر رہے ہیں۔ سب کی منزل ایک اور آرزو ایک، سب کے دل و دماغ پر ایک ہی دھن سوار، عبادت کی قبولیت اور دعاؤں کی اجابت کا سودا۔ سب اللہ کے رنگ میں رنگے عاجزی، انکساری ، مسکینی اور بے مائیگی کے سانچے میں ڈھلے ہیں۔ لاکھوں انسان ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اور کسی کو ایک دوسرے سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کہ وہ اس سے آگے کیوں بڑھ گیا؟ اس نے حجر اسودکو بوسہ کیوں دے لیا، اس کی کہنی کیوں لگ گئیں اور وہ اونچی آواز میں دعا و التجا سے میری محویت اور یکسوئی میں دخل اندازی کا مرتکب ہوا؟اس دائرے میں سب مانگنے والے ہیں، محتاج ، بے بس اورلاچار۔ دینے والا صرف ایک ہے اور اس کی رضا و خوشنودی کے سب طلبگار۔ یہا ں کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر، آقا کوغلام پر، امیر کو غریب پر اور طاقتور کو کمزور پر کسی قسم کی برتری حاصل نہیں بلکہ یہاں کمزور کا سب خیال کر رہے ہیں خواہ وہ کوئی ضعیف العمر ہو، بچہ، عورت یامعذور۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنے آپ کو عبد اور بندے کے سوا کچھ اور سمجھا، دوسرے کی تحقیر کا خیال دل میں لایا سمجھو عبادت اکارت اور دعا رائیگاں گئی۔یہاں کوئی فرقہ نظر آتا ہے نہ تفرقہ، امہ کاتصور البتہ واضح اور ناقابل تردید ہے۔ ہر شخص اپنے رب کو راضی کرنے کے جتن کر رہاہے، گزشتہ کی معافی مانگ رہا ہے اور آئندہ حرص، طمع، لالچ، بغض و عناد، کثرت کی خواہش، مفادپرستی، مردم گزاری اور حق تلفی کی مکروہ عادات سے بچنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ اچھا انسان، مقامی شہری اور باکردار مسلمان بننے کی خواہش غالب ہے اور وہ اپنے آپ میں تبدیلی کا آرزومند ہے۔ ہر شخص اپنے خاندان، برادری، گروہ اور ملک کی بہتری کی دعا کر رہا ہے مگر عالم اسلام کی اجتماعی فلاح و بہبود سب کو مطلوب ہے تاکہ اقوام عالم میں وہ بھی سر اٹھا کرچل سکیں۔
جو مصروف ِ طواف نہیں، مطاف کے اندر اور باہر عبادت میں مشغول ہیں، نوافل یا تلاوت قرآن مجید میں محو، حال ان کا بھی کعبة اللہ کے ارد گرد چکر لگانے والوں سے مختلف نہیں۔ مرد و خواتین ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے مگر مجال ہے کہ کسی سے کوئی معیوب حرکت اور ناپسندیدہ فعل سرزد ہو۔ خوف ِ خدا نے انہیں وقتی طور پر سہی نفسانی خواہشات اور بشری کمزوریوں سے پاک کر دیاہے۔ شہر مکہ میں انسانوں نے فرشتوں کاروپ دھار لیاہے اور اس معصوم بچے کی طرح جو ماں کے پیٹے سے نکلتے وقت ہر خطا و عصیاں، عیب اور بشری کمزوریوں سے پاک ہوتاہے۔ دین فطرت پر کاربند اور ہر طرح کی تفریق و اختلاف سے بالاتر، انسانوں کا یہ جم غفیر بھی ایک نئے سانچے میں ڈھل چکا ہے اور اپنی نئی عالمی شناخت پر نازاں ہے۔
نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردہٴ یک نو بہاریم
(اقبال)
معصوم بچے کو والدین اور حالاتِ زمانہ یہودی، نصرانی، ہندو، بدھ اور عیسائی بنا دیتے ہیں اور وہ دین فطرت پر کاربند نہیں رہتا۔ مصعوم، تبدیلی کے خواہشمند اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اپنی پوری زندگی کو ڈھالنے کی آرزو سے سرشار لاکھوں مسلمان بھی ایک ایسے جوہری کی تلاش میں ہیں۔ ایک نہیں تو کئی جوہریوں کا گروہ جو اس خام مال کو اقبال کے مرد ِ مومن کے سانچے میں ڈھال دے۔ قابل تقلید رہنمائی اور ان تھک محنت سے ایسا انسان بنا دے جو یہاں سے واپس جا کر انہی صفات کو سختی سے اپنے قلب و روح اور جسم و جاں کا حصہ بنائے رکھے جو قیام مکہ مکرمہ اور زیارت مدینہ منورہ کے دوران اس نے اپنے اندر پیدا کیں اور کئی دنوں تک وہ ایک مختلف انسان کی شکل میں نظر آتا رہا۔
ایک ایسا انسان جو جھوٹ بولے نہ کم تولے، مہنگا بیچے نہ ملاوٹ کرے، حق تلفی، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، فریب کاری، جعلسازی، بدعنوانی، بے ضابطگی، قانون شکنی کا مرتکب نہ ہو، جہالت کو گلے لگائے، نہ علم سے جی چرائے، خالق و رازق اور معبودحقیقی کے سواکسی کے سامنے سر جھکائے نہ کسی امریکہ و یورپ کو اپنا آقا و مولا سمجھے اور نہ دولت واقتدار، طاقت واستعمار کے بتوں کی پوجا کرے۔ ایام حج میں لوہا گرم ہے بس ذرا سی چوٹ لگانے کی دیر ہے مگر یہ کام کرے گا کون؟ آ ج تک تو کسی نے کیا نہیں، کسی کا ارادہ بھی کہاں؟منیٰ میں قیام، وقوف عرفات، مزدلفہ کی شب بسری اور شیطانوں کی سنگساری کے مراحل باقی ہیں مگر ابھی سے یہ سوچ کر دل ڈوبنے لگا ہے کہ اس شہر مبارک کوالوداع کہنے کے بعد جب ہم اپنے اپنے ممالک اور ماحول میں جا بسیں گے تو رنگ و نسل، زبان و عقیدے اور طبقہ و گروہ کے تعصبات، منافرتیں ہم پر غلبہ حاصل کرلیں گی۔ تین دن ہم نے شیطانوں پرکنکریاں برسائیں پھر پورا سال شیطان اس کا بدلہ لیں گے اور نفسانی خواہشات کا شیطان بزرگ ہمارے سر پر سوار ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ مایوسی کفر ہے اور خیر کی خواہش فرض۔ اللہ تعالیٰ لاکھوں انسانوں کی دعاؤں، التجاؤں اور خواہشات کو یقینا رد نہیں کرے گا اور یہی حج کی اصل منفعت ہے۔
جے یار فرید قبول کرے سرکار دی توں سلطان دی توں
نئیں ناں کہتر کم تر، احقر، ادنیٰ لاشئے لا مکاں دی توں
تازہ ترین