• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم جاری کیا، اس حکم کی اساس جنرل اسد درانی کا وہ بیان حلفی ہے جس میں انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کو رقوم فراہم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت عالیہ نے شریف برداران کو سزا کیوں نہیں سنائی۔ ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کا حکم کیوں دیا۔ اس پرکمال جرأت مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو رحمن ملک کی ایف آئی اے کہہ کر اس سے تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا جوعدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے، پھر اس سے بڑھ کر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کالم نگار نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ”سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے والے کم فہم ، زیاں کاراور سود فراموش خیال کئے جاتے ہیں“۔
چلئے باقی گل افشانیاں رہنے دیتے ہیں صرف اسی سوال پر غور کرتے ہیں کہ عدالت نے شریف برادران کا کیس کس لئے ایف آئی اے کو بھیج دیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ عدالت قانونی تقاضوں کو پورا کرنا چاہتی ہے مگر اس جرم کے قانونی تقاضے تو بہت خوفناک ہیں۔ ان کے تحت تو ایف آئی ا ے شریف برادران کو گرفتار کرے گی پھر عدالت سے کم ازکم 14 دن کا ریمانڈ لے گی پھر تفتیش کی جائے گی۔ اس رقم کے حوالے سے بھی اور اس کے علاوہ بھی، کچھ وکلا کے خیال میں ان جرائم میں شریف برادران کو طویل قیدِ بامشقت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی پوری طرح مسلم لیگ ن کا ساتھ دے گی۔ ایف آئی اے کی تفتیش شریف برادان کو یہ کہہ کر بے گناہ ثابت کردے گی کہ جنرل اسد درانی کا یہ حلفیہ بیان غلط ہے۔ انہوں نے دراصل سفیر بننے کی خواہش میں جنرل نصیر اللہ بابر کے کہنے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کوخوش کرنے کیلئے ویسے ہی ایک تحریر لکھ کر دے دی تھی جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جنرل اسد درانی سے تفتیش کرنے کا یا ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے وہ فوج کا معاملہ ہے۔۔۔ مگر کیوں؟ ایسا کیوں ہوگا؟ آئیے اس کیوں کا جواب ماضی قریب کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں تلاش کرتے ہیں۔
جب نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اورمحترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تواس وقت محترمہ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ نواز شریف کواپنی مخالفت میں اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہیں تو محترمہ نے ہنس کر کہا تھا ”مستقبل کی بہتری کیلئے“۔ جب نواز شریف اور شہباز شریف کا مولانا غفور الوری کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ اور چیک کی فوٹو کاپی ڈاکٹر شیر افگن نے قومی اسمبلی میں پیش کی تھی اور سپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی تھی کہ یہ ریفرنس کورٹ کو بھیج دیا جائے تاکہ شریف برادران کو سزا مل سکے تو انہیں بے حد مایوسی کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ اس ریفرنس کیلئے انہوں نے وزارت تک سے استعفیٰ دے دیا تھا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو اس کام کیلئے تیار نہ ہوئی تھیں (ویسے موجودہ صورت حال میں عمران خان کی طرف سے اس معاہدہ کی کاپی بھی ایف آئی اے کو پہنچ سکتی ہے کیونکہ جرم کبھی مرتا نہیں ہے)
جب نواز شریف نے جیل میںآ صف زرداری سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی تھی تو انہوں نے فوراً نواز شریف کو معاف کردیا تھاحالانکہ جو کچھ اپنے دورِ اقتدار میں نواز شریف نے کیا تھا وہ قابلِ معافی نہیں تھا۔ پھر لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان جو معاملات طے ہوئے انہی کی وجہ سے آصف زرداری کی حکومت آج تک قائم ہے۔ بلکہ نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا اگر کسی نے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کی کوشش کی تو نواز شریف راستہ کی دیوار ثابت ہوگا اور ہوا۔ پیپلز پارٹی نے بھی ق لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب حکومت گرانے کی کوئی کامیاب کوشش جان بوجھ کر ہی نہیں کی وگرنہ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ نواز شریف نے انتخابات میں حصہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر لیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد آصف زرداری کے مجبور کرنے پر، وگرنہ وہ تو بائیکاٹ کرچکے تھے۔ جج بحالی کی تحریک میں اس
وقت تک نواز شریف نے کوئی لانگ مارچ وغیرہ نہیں کیا جب تک چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرڈمنٹ کی تاریخ نہیں آئی یعنی تمام تر اختلافات کے باوجود دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو راستہ دیتی چلی آرہی ہیں۔ آصف زرداری کی حکومت میں شریف برادران کے خلاف کرپشن کے کسی کیس میں بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔
عوام دونوں طرف کی کرپشن کو اچھی طرح جانتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو آئندہ انتخابات میں ہوگا جہاں تک ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اس محبت کا تعلق ہے تواسے اقتدار کی نورا کشتی تو نہیں کہنا چاہئے مگر یہ ہے کوئی اسی سے ملتی جلتی چیز۔
تازہ ترین