• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے تحریک انصاف نے پورے طمطراق سے حکومت میں آنے کے بعد اپنے سو روزہ انقلابی منصوبے کاا علان کیا۔ اس منصوبے کے بنیادی نکات میں طرز حکومت کی تبدیلی، معیشت کی بحالی،زرعی ترقی،پانی کا تحفظ، سماجی خدمات، غیرسیاسی بھرتیاں،سی پیک کو تحفظ دینا، چوری شدہ دولت واپس لانا،ایک کروڑ ملازمتیں،ایک ارب درخت، پچاس لاکھ گھر، صحت کے مسائل کا حل، قرضے نہ لینے کا عہد، سوا تین کروڑ سرکاری اسکولوں کے بچوں پر توجہ دینا، پچیس لاکھ مدارس کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا، بیوروکریسی کو ٹھیک کرنا، مزدوروں کی حفاظت کے لئے لیبر پالیسی بنانا، سیاحتی مقامات کو بہتر بنانا اور پاکستان کو ایک کاروبار دوست ملک میں بدلنا ہیں۔
اس منصوبے کے تمام ہی نکات وہ ہیں جو ہمیشہ سے پاکستانیوں کے لئے خوش کن خواب رہے ہیں۔ ان نکات میں سے ہر نکتہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ سوال صرف یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن سے بہت پہلے وہ کیا ضرورت درپیش تھی جس نے تحریک انصاف کو اس حیران کن منصوبے کے انکشاف پر مجبور کیا؟ ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں دیکھا ہے کہ تحریک انصاف نے اس ملک میں صرف احتجاجی سیاست کی ہے۔ تعمیر کی طرف توجہ کم ہی دی گئی ہے۔ اختلاف اور اختلاف برائے اختلاف ہی مطمح نظر رہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف نے ان پانچ سالوں میں صرف ایک نعرے پر کام کیا ہے اور وہ نعرہ ’’گو نوازگو‘‘ ہے۔ اب جبکہ نواز شریف نااہل قرار پاچکے ہیں تو تحریک انصاف کے پاس لگانے کے لئے کوئی نعرہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے اب پی ٹی آئی کے جلسوں میں نہ وہ جوش ہے نہ ان کے کارکنوں میں وہ جذبہ نظر آتا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کے حوالے سے بھی راوی خاموش ہے۔ اس مرحلے پر ایک نیاسیاسی نعرہ تخلیق کرنے کے لئے یہ سو روزہ پلان قوم کے سامنے رکھا گیا۔ اچھی اچھی باتیں کی گئیں۔ نئے نئے خواب دکھائے گئے۔ امیدوں کے سبز باغ سجائے گئے۔ سو دن کے اس منصوبے میں عوام بہت دلچسپی لیتے اگر گزشتہ پانچ سالوں میں کے پی کی کارکردگی مثالی ہوتی۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف نے جو جو نعرہ 2013کی انتخابی مہم میں لگایا تھا ان سب سے انحراف کیا ہے۔ اب چونکہ کام دکھانے کے لئے کچھ نہیں لہذا خواب فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ لیکن خان صاحب کو اس منصوبے کے انکشاف کے وقت یہ بات یاد نہیں رہی کہ اس ملک کے عوام گزشتہ پانچ سالوں میں سیاسی طور پر بہت بالغ ہو چکے ہیں ۔ وہ اپنے رنگ سے احتجاج کرنا جانتے ہیں۔ دیگر صوبوں کی ترقی کا موازنہ کرنا جانتے ہیں۔ اس موازنے کے لئے بہترین ہتھیار ان کے پاس ووٹ کی صورت میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی ووٹ کی مدد سے اس سو دن کے منصوبے کا بھی شکار کیا جائے گا۔
پاکستان کے عوام اس لازوال منصوبے پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے اگر کے پی میں 350 ڈیم بن چکے ہوتے۔ ہم سب اس سو دن کے منصوبے کی حمایت کرتے اگر حسب وعدہ کے پی اتنی بجلی بنا چکا ہوتا کہ دوسروں کو برآمد کی جارہی ہوتی۔ اہل پاکستان ضرور اس منصوبے کو سنجیدگی سے لیتے اگر کے پی میں کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ سارا پاکستان اس منصوبے کی داد دیتا اگر کے پی میں 2013 کے وعدوں کے مطابق یکساں نظام تعلیم رائج ہو چکا ہوتا۔ سارا پاکستان خان صاحب کو ووٹ دیتا اگر کے پی میں بلدیاتی انتخابات نوے دن میں پرامن طریقے سے ہو چکے ہوتے۔ ہر صوبے کے عوام تحریک انصاف پر فریفتہ ہوتے اگر احتساب کا عمل کے پی میں شفاف ہوتا۔ پاکستان کے غیور عوام اس منصوبے کو سنجیدگی سے لیتے اگر کے پی میں آمدو رفت کے جدید ذرائع تخلیق کئےجا چکے ہوتے، میٹرو اور موٹر ویز بن چکی ہوتیں۔ملک کے عوام اس منصوبے کو دیوانہ وار چوم رہے ہوتے اگر کے پی میں بے روزگاری ختم ہو چکی ہوتی۔ دنیا بھر کی ماحولیات کی ایجنسیاں خان صاحب کی بات کا اعتبار کرتیں اگر واقعی کے پی میں ایک ارب درخت لگ چکے ہوتے۔ سارا پاکستان خان صاحب کو اس سو روزہ منصوبے پر ووٹ دیتا اگر ہمارے کے پی کے سیاحتی مقامات میں کوئی بہتری آ چکی ہوتی۔ ہم سب خان صاحب کے ساتھ اس خواب آور منصوبے کے حق میں نعرے لگاتے اگر کے پی میں صحت کے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ سرکاری اسپتال اپنی کارکردگی کے عروج پر ہوتے۔ اس وقت یہ منصوبہ ایسا ہی ہےجسے کسی شخص نے نیم مدہوشی میں بنایا ہے اور اس کو اس کے صوبے کے پی پر گزرنے والے پانچ سال کا قطعی کوئی علم نہیں ہے۔ ایسی منصوبہ سازی ہوش میں نہیں ہوسکتی۔ گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی کو دیکھ کر کوئی اس پر یقین نہیں کر سکتا۔ یہ سودا اب کم از کم اس الیکشن میں نہیں بک سکتا ۔ لوگ اب صوبوں کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہیں۔ اپنے حقوق کو سمجھتے ہیں۔ دل ہی دل میں اپنی حکومتوں کا احتساب کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے احتجاج کا علم بلند کرتے ہیں۔
لوگوں کو شاید اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ کے پی کی اس وقت کیا حالت ہے۔ جس وقت یہ لازوال منصوبہ پیش کیا جارہا تھا اس وقت عالم یہ ہے کہ سارا پشاور ڈیڑھ سال سے کھدا ہوا ہے۔ اس کھدائی کا سبب وہ جنگلہ بس ہے جس کے خلاف خان صاحب نے بہت تقریریں کی تھیں۔ اس منصوبے کی تکمیل کے کوئی امکانات نہیں کیونکہ کک بیکس اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اب جب تک یہ آدھی پونی سڑک منہدم نہیں کی جائے پشاور کا ٹریفک رواں نہیں ہو سکے گا۔ اب تک اس منصوبے پر اربوں روپے کی لاگت آچکی ہے اور اس منصوبے کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر بسیں بھی برآمد ہو چکی ہیں مگر ابھی سڑک دستیاب نہیں ہے۔ تعلیم کے سونامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ پہلی دفعہ سرکاری اسکول پیچھے رہ گئے اور امتحان میں تمام کی تمام پوزیشنز پرائیویٹ اداروںنے حاصل کر لیں۔ صحت کے انصاف کا یہ عالم ہے کہ پانچ سال میں ایک بھی سرکاری اسپتال نہیں بن سکا اور منصوبہ سازوں نے وہ جادو کیا کہ وہ سرکاری اسپتال جہاں دو روپے کی پرچی میں علاج ہو جاتا تھا اب اس علاج کی قیمت پانچ سو روپے ہو چکی ہے۔ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا یہ عالم ہے کہ ایک مدرسے کو پہلے تیس کروڑ دیئے اور پھر مزید امداد کا اعلان کر دیا گیا۔ اس مدرسے کی وجہ شہرت سے آپ سب لوگ بخوبی واقف ہیں۔ کے پی میں دور، دور تک کوئی ڈیم نہیں بنا اور بجلی کا ایک قطرہ بھی نہیں بنایا گیا۔ اس عرصے میں محبت اور یک جہتی کا یہ سبق دیا گیا کہ کے پی کو دوسرے صوبوں سے لڑوایا گیا اور دھرنا ٹو میں صوبوں کی سرحدوں پر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کی گئی۔
خواتین اور اقلیتوں کے احترام کا یہ عالم ہے عائشہ گلالئی کو سرعام قتل کی دھمکیاں دی گئیں، اقلیتی ممبران کو دن دیہاڑے گولی مار دی گی۔ زخمی خواجہ سرا کا اسپتال والوں نے علاج سے انکار کر دیا۔ سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی ارکان سے سینٹ میں ووٹ ڈلوا کر انہی پر الزام لگایا اور انہیں پارٹی سے نکالنے کا نوٹیفکیشن دے دیا۔ نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کا کیا بنا اس پر راوی خاموش ہی خاموش ہے۔ اسی دور حکومت میں صوبائی حکومت کے ایک کونسلر کی ایما پر مشال خان کا قتل کیا گیا۔ مثالی پولیس کا یہ عالم ہے یہ چند ایک ماڈل تھانے بنانے کے بعد باقی ساری ترقی فوٹو شاپ سے کی گئی ہے۔ کرپشن کا یہ حال ہے کہ چھوٹے درجے کی ملازمتیں چار چار لاکھ میں فروخت کی گئیں۔ صرف وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر نے اپنے اثرورسوخ کی بنا پر 36 افراد کو بھرتی کروایا۔ معذور افراد کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی اس مد میں دیئے گئے 75 کروڑ کا کیا بنا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
خان صاحب کو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ 2013 میں عمران خان ایک خواب کی طرح تھے مگر ان پانچ سالوں میں کے پی میں بدترین گورننس کے سبب یہ خواب ایک بھیانک حقیقت بن چکا ہے۔ ترقی کے منصوبوں کے لوازمات اب مطمح نظر نہیں رہے اب ’’ لوٹوں‘‘ سے انقلاب لایا جا رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین