• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف سے بچنے کیلئے دوست ملک سے مدد کی کوشش

اسلام آباد (انصار عباسی) واشنگٹن کی تلخیوں کے دوران مزید قرضوں کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچنے کیلئے پاکستانی حکام ایک دوست ملک سے مدد کے حصول کی کوشش اور ایمنسٹی اسکیم پر سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے پر انحصار کر رہے ہیں تاکہ ملک کے تیزی سے زوال پذیر غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا جا سکے۔ ایک باخبر سرکاری عہدیدار کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ دوست ملک سے پاکستان کو آئندہ ہفتے ایک سے دو ارب ڈالرز مل جائیں گے، حکام کی نظریں سپریم کورٹ پر بھی مرکوز ہیں جس کے متعلقہ کیس پر فیصلے کا ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی پر زبردست اثر مرتب ہوگا، اسکیم کا اعلان حال ہی میں کیا گیا تھا جسے قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کا حصہ بھی بنایا ہے۔ اگر سپریم کورٹ بھی اس کی توثیق کر دے تو توقع ہے کہ موجودہ ایمنسٹی اسکیم ایک ایسے موقع پر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب ملک کو آمدنی کے اپنے ذرائع بہتر بنانے اور غیر ملکی زر مبادلہ میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ رواں سال 5؍ اپریل کو اعلان کردہ حکومتی ایمنسٹی اسکیم کے تحت لوگوں نے اب تک تقریباً 10؍ ارب روپے ظاہر کیے ہیں اور تقریباً 50؍ کروڑ روپے ٹیکس کی مد میں جمع کیے جا چکے ہیں۔ سرکاری ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ اسکیم کا فائدہ اٹھانے کیلئے لوگ دلچسپی لے رہے ہیں لیکن وسیع اکثریت ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت اس متعلقہ کیس کا کیا فیصلہ سامنے آئے گا، لوگوں کی زیادہ تعداد اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن وہ اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس اور ان کی دولت واپس لانے کے از خود نوٹس کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ سرکاری ایمنسٹی اسکیم کے تحت ایسی دولت ظاہر کرنے کی بات کی گئی ہے جو ملک کے اندر یا باہر جمع کی گئی ہے۔ یہ اسکیم شروع کرنے سے قبل، وزیراعظم شاہد عباسی نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو اس ایشو پر ہونے والی ملاقات کے دوران اعتماد میں لیا تھا۔ اسکیم اور ٹیکس اصلاحات لانے سے قبل وزیراعظم نے آرمی چیف سے بھی بات کی تھی۔ حکومت کو توقع ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک دولت واپس لانے کی خاطر لیے گئے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ اس اسکیم کی توثیق کرے گی۔ حکومت کو اس وجہ سے بھی یقین ہے کہ اس کی اعلانیہ ایمنسٹی اسکیم، چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے پاکستانیوں کی بیرون ملک دولت واپس لانے کے حوالے سے تشکیل دی جانے والی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کراتے ہوئے مذکورہ کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ موجودہ ماحول اس بات کیلئے سازگار ہے کہ ایسی اسکیم لائی جائے جس کے تحت پاکستانی شہری رضاکارانہ بنیاد پر اپنی دولت ظاہر کریں اور بیرون ملک موجود اپنے اثاثے واپس لائیں۔ کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ پاکستانی شہریوں کی بیرون ملک دولت کا پتہ لگانے کا موجودہ نظام اور طریقہ کار جیسا کہ او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) اور کثیر الملکی معاہدوں کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے تاکہ شہریوں کو آمادہ کیا جا سکے کہ اگر انہوں نے اس ایک مرتبہ فراہم کیے گئے موقع کے دوران اپنے اثاثے ظاہر نہ کیے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان اثاثوں کا کھوج لگایا جائے گا اور ایسے افراد پرسخت جرمانے عائد اور مقدمات چلائے جائیں گے۔ کمیٹی کے سربراہ اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ تھے اور اس کے دیگر ارکان میں سیکریٹری خزانہ عارف خان، چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، ڈپٹی چیئرمین نیب ایم امتیاز تاجور، چیئرمین ایس ای سی پی ظفر عبداللہ، اسپیشل سیکریٹری وزارت خارجہ شاہ ایم جمال اور ڈائریکٹر آئی بی عبدالنصر شجاع شامل تھے۔ رپورٹ کی تیاری کیلئے، کمیٹی نے مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول گل احمد ٹیکسٹائل ملز کے بشیر علی محمد، عارف حبیب گرو پ کے عارف حبیب، حزیمہ اینڈ اکرام کے ڈاکٹر اکرام الحق، مانڈوی والا اینڈ ظفر کے محمود مانڈوی والا اور علی ظفر، اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے سید شبر زیدی، ایف پی سی سی آئی کے سید مظہر علی ناصر، کراچی چیمبر آف کامرس کے سراج کاسان تیلی اور عبدالباسط، لاہور چیمبر آف کامرس کے ملک طاہر جاوید، اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے عاصم ذوالفقار اور راشد ابراہیم، ٹیکس ریفارمز کمیشن کے مسعود الحسن نقوی اور اشفاق تولہ سے بھی مشاورت کی گئی۔ اسی دوران، ایک اچھی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ چین کے سینٹرل بینک نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے تین سال کیلئے پاکستان کے ساتھ 20؍ ارب یو آن (3.13؍ ارب ڈالرز) کے کرنسی سواپ کا دو طرفہ معاہدہ کیا ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔ معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بھی کم ہوگا۔

تازہ ترین