• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ مہینوں کے دوران ملنے والے سیاسی اشاریوں اور روایتی شواہد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آنے والے انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے درمیان ایک سہہ جہتی مقابلہ ہوں گے نہ کہ محض ایک دو جماعتی دنگل۔ انٹرنیشنل ری پبلک انسٹی ٹیوٹ(IRI)کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے رائے عامہ کے ایک سروے سے اس نظریے کو تقویت ملی ہے۔ قومی نمائندگی کے عکاس اس سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ اگر آئندہ ہفتے انتخابات کا انعقاد ہو تو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ جواب میں28فی صد نے کہا کہ وہ نواز شریف کو ووٹ دیں گے،24فی صد عمران خان کے حق میں تھے جب کہ محض14فی صد نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کی۔ اگر ایسا ہی انتخابات کے دوران ہوا جس میں ممکنہ طور پر چند ہی ماہ بچے ہیں تو نتائج بڑے پیمانے پر ملکی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیں گے۔ پارٹی رہنماؤں کی نگاہ اس سروے کے ان نتائج پر ہے جو ان کے مفاد میں ہیں جب کہ جو چیز ان کے مفاد میں نہیں ہے اسے انہوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ رویہ غیر متوقع نہیں ہے اور تمام دنیا میں کم و بیش ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر سروے نتائج کا ایک دیگر پہلو قابل غور و فکر ہے۔ تین اہم سیاسی جماعتوں اور اہم چھوٹی پارٹیوں کے مابین ووٹوں کی تقسیم کا بھی ایک منتشر نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ایک انتخابی جمود حکومت سازی کے عمل کو کسی کے بھی تصور سے زیادہ طویل کر دے گا جس کی وجہ سے معیشت کی بابت فوری لیے جانے والے فیصلے تاخیر کا شکار ہو جائیں گے جو اندازوں کے مطابق اس وقت تباہی کے کنارے پر کھڑی ہو گی۔ ایک غیر مستحکم، تاخیر کا شکار یا مجہول اتحادی حکومت سخت اور بر وقت فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہو گی اور نتیجتاً کھائی کے کنارے ڈولتی معیشت بالآخر اپنا توازن کھو دے گی۔ کیا سیاست اور معیشت میں تصادم ہوگا جو اس معاشی تباہی کو روکنے والی کوششوں کے اثر کو ختم کر دے گا؟ کیا انتخابی نتائج وطن عزیز کی جانب آنے والے معاشی تباہی کے اژدھے کا سر کچلنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟ ملکی مستقبل کے لیے اہم ترین ان سوالوں کا کوئی فوری جواب نہیں ہے۔ ان سوالات کا تجزیہ کرنے سے قبل پہلے ہم سروے کے نتائج اور اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ان سے انتخابی منظر نامے کے علاوہ دیگر کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہIRIکا ماننا ہے کہ ان کا سروے مستقبل کا ایک دھندلا خاکہ پیش کرتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے نتائج کو اصل انتخابی نتائج کی بابت حتمی باور نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات کا ابھی اعلان ہونا ہے اور انتخابی مہم شروع ہوتے ہی بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ غیر وابستہ رائے دہندگان کی اونچی شرح کو ریکارڈ کیے جانے کے باعثIRIکے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ18فی صد رائے دہندگان نہیں جانتے کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ چنانچہ ایک طرف تو یہ شرح بہت بلند ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے اور دوسری طرف یہ انتخابات اور انتخابی نتائج کے بارے میں پیش گوئی کو غیر یقینی بھی بنا دیتی ہے۔ اب ہم ان تمام حدود و قیود کے ساتھ سروے کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں۔ سروے میں جو ایک اہم بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے لیے عوامی حمایت کم ہو رہی ہے۔ یہ نتیجہ ملک میں پھیلے عام تصور اور سروے کے دیگر نتائج کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ مثال کے طور پر سروے میں شریک91فی صد کا ماننا ہے کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اتنے بلند درجے کا عوامی عدم اطمینان ”گیلپ پاکستان“ اور ”پیو ریسرچ“ کے نتائج کو تقویت دیتا ہے۔ آئی آر آئی کے سروے میں74فی صد کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں اتحادی حکومت کے دور میں ان کی معاشی کیفیت بد ترین ہو گئی ہے جب کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ شرح51فی صد تھی۔ حسب توقع74فی صد نے معیشت اور توانائی کی قلت کو اولین ترجیحات کے مسائل قرار دیا۔ یہ کیفیت بھی حکمرانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے کی عکاس میڈیا رپورٹوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ اگر انتخابات میں ووٹنگ کی کیفیتIRIکے نتائج کے مطابق ہوئی تو سمجھ لیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک تاریخی شکست کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے بعد ممکن ہے کہ اس کی حیثیت محض دیہی سندھ کی پارٹی کے طور پر محدود ہو جائے۔ سروے نتائج کے مطابق پی پی پی کو صوبہ پنجاب میں بہت کم حمایت ملی ہے اور اس کا وہاں پاکستان مسلم لیگ ن یا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تاہم جو چیز یہاں واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رائے دہندگی کی بابت قومی رجحان یا ارادوں کا جانچنے کا سروے حلقہ انتخاب…تا…حلقہ انتخاب تحرک کو نہیں جانچتا جس کے (تحرک) باعث پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ووٹوں کی تقسیم پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس پول میں دیے گئے جوابات کے ایک اور انکشاف کن پہلو کا تعلق انتخابات کے بعد بننے والے سیاسی اتحاد سے متعلق ہے۔ اس تناظر میں پاکستان مسلم لیگ ق قومی سطح پر سب سے غیر مقبول جماعت کے طور پر ابھرتی ہے اور یہ بات اس امر کی عکاس ہے کہ عوام ممکنہ طور پر اس جماعت کو اس کی موقع پرست سیاست کی بناء پر رد کر دیں گے۔ پنجاب میں صرف دو فی صد نے کہا کہ وہ اسے ووٹ دیں گے۔ اگر اس نتیجے کو جزوی طور پر بھی درست قرار دیا جائے جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ ق کو کم ”اصلی“ سیاسی شناخت حاصل ہے اور یہ زیادہ تر مقامی طور پر ”با اثر“ عناصر کے ساتھ وابستہ ہے تب بھی دیگر اشاریے عکاس ہیں کہ اس جماعت کا سیاسی مستقبل روشن نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ووٹ دینے کے ارادے کی بابت پوچھے گئے سوالات کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کا بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے جو وہاں سب سے مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ اگر انتخابات تک یہی رائے بر قرار رہی تو دیگر چیزوں کے درمیان اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جیتنے والی جماعت یا وہ جماعت جو قومی سطح پر واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی ۔(جاری ہے)
تازہ ترین