• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مخدوم نامہ … سید طارق محمودالحسن
(پہلی قسط)
مسئلہ فلسطین تاریخ کا ایک خونیں باب ہے اور ایک ایسی سرفروشانہ غلیل بردار عوامی جدوجہد جس نے دنیا بھر کے انقلابی رہنماؤں، دانشوروں، فلسفیوں، سیاسی مدبرین اور حریت پسندوں کے قلب و ذہن کو عشروں تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ میرے لئے اس سے زیادہ صدمے کی بات کوئی اور نہ ہو گی کہ فلسطینیوں کے ساتھ صہونیت کے علمبردار وہی سلوک کریں جو نازیوں نے یہودیوں سے کیا تھا۔ تنظیم آزادی فلسطین کے مرحوم سربراہ یاسر عرفات نے اقوام متحدہ میں عالمی ضمیر سے اپیل کی تھی کہ ان کے ہاتھ سے زیتون کی شاخ نہ گرنے دیں۔ آج فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اپنوں کی بے وفائی، سپر پاورز کی منافقت اور عالمی برادری کی سنگدلی اور مصلحت اندیشی کا درد ناک قتل نامہ بن چکی ہے۔ لمحہ موجود میں مسئلہ فلسطین ایک ایسا آتش فشاں بن چکا ہے جو پھٹے گا تو عالمی امن بھڑکتی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہو گا ۔ اس لئے جنگ کے دیوتا کو ہم آواز ہو کر پیغام دینا ہو گا کہ زمین زاد امن کی فاختہ کو مرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے۔ یروشلم پر برطانیہ کے قبضے کے دن جب برطانوی جنرل ایلن بی ننگے پاؤں یروشلم میں داخل ہوا تھا وہ سال تھا 1917 اور تاریخ تھی 17 دسمبر ۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ سو سال بعد اسی 17 دسمبر کے دن امریکہ میں ایک شخص حیران کن طریقے سے برسراقتدار آیا اور اس جنونی شخص ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے سال عین اسی تاریخ 17 دسمبر 2017 کو متنازعہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا۔ امریکہ نے اگرچہ اسرائیل کو 70 سال قبل ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا مگر امریکہ کے کسی حکمران کو بیت القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کی جرات نہیں ہو سکی تھی اور آج تک امریکہ سمیت تمام ممالک کے سفارت خانے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہی قائم رہے ۔ یہ کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ امریکی ریپبلکنز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی حاصل ہوا ہے کہ اس نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا محض اعلان ہی نہیں کیا بلکہ 14 مئی کو اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ حالانکہ گزشتہ سال 22 دسمبر 2017 کو امریکی دھمکیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے امریکی اعلان کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی تھی۔ امریکہ کے خلاف یہ قرارداد پاکستان، ترکی، مصر، یمن اور عراق نے پیش کی تھی۔ اس قرارداد کے حق میں 128جبکہ مخالفت میں صرف 9 ووٹ آئے جبکہ 35 ارکان غیرحاضر اور 21 اجلاس میں موجود ہونے کے باوجود لاتعلق رہے۔ برطانیہ، جاپان، فرانس، جرمنی، روس اور چین نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا ۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے ۔ ظلم یہ ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو پس پشت ڈال کر 15مئی کو باقاعدہ ایک تقریب میں بیت المقدس میں اپنے سفارت خانہ کا افتتاح کر دیا ۔ افتتاح کی اس تقریب میں 68ملکوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن صرف 33ممالک نے شرکت کی۔ اہم بات یہ ہے کہ یروشلم میں امریکی سفارت خانے کا افتتاح ریاست اسرائیل کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھا گیا ۔یہ وہ سیاہ دن ہے جسے فلسطینی ہر سال 1948میں اسرائیل کی طرف سے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کرنے اور آبائی وطن واپسی کے پیدائشی حق کے حصول کیلئے " یوم النکبہ " کے نام سے بطور احتجاج مناتے ہیں۔ اس بار یوم النکبہ امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے روز آیا۔ اس دن امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے ساتھ ہی عزا کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے جمع ہو کر احتجاج شروع کردیا ، اس موقع پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے 52 فلسطینیوں کو شہید اور 2 ہزار سے زائد مظاہرین کو شدید زخمی کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گریٹ مارچ آف ریٹرن میں شرکت کے لئے غزہ میں موجود نہتے فلسطینیوں پر قابض اسرائیلی فوج نے ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے بچوں ، خواتین اور بزرگوں کو سفاکیت کے ساتھ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا ۔ لاشے تڑپتے رہے، معصوم بچے موت کے گھاٹ اترتے رہے، فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوج کی گولیاں کھا کر خون میں نہاتے رہے، بوڑھے فلسطینیوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہوتے رہے لیکن دوسری طرف عین اسی وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ تالیوں کی گونج اور قہقہوں کے جھرمٹ میں انبیاء کی سرزمین بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی نقاب کشائی کر رہی تھی۔ اس طرح امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی تقریب خونریز داستان میں بدل گئی ۔ اس سے پہلے اسی سال 30 مارچ کو جب فلسطینی " یوم الارض " کے موقع پر غزہ میں جمع ہوئے تھے تو غزہ کے علاقے خان یونس میں اسرائیلی فوج نے سیدھی گولیاں چلا کر 20 فلسطینیوں کو شہید اور 1500 سے زائد کو شدید زخمی کر دیا تھا ۔ کوئی دن نہیں جاتا جب فلسطینی شہریوں کو بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سامنا نہ ہو مگر اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور چھوٹی بڑی دیگر عالمی تنظیمیں کمزور سے کمزور الفاظ میں تنازع فلسطین حل کرنے کا بیان جاری کر کے دوبارہ بے حسی کی چادر اوڑھ لیتی ہیں ۔ جب آپ اپنے پرسکون گھر میں بیٹھے شاید چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس لمحے بھی فلسطینی نوجوان ، بوڑھے، عورتیں اور بچے جان ہتھیلی پر رکھے سراپا احتجاج ہوں گے اور بےرحم اسرائیلی فوجیوں کی گولیاں کسی فلسطینی کے حلقوم ، سینے اور سر میں چھید کر کے ناجائز اسرائیلی ریاست کے لئے خون کا خراج وصول کر رہی ہوں گی۔ ایک جنگ ، مسلسل جنگ ، جو ستر سال سے جاری ہے ، ایک دن کے لئے بھی نہیں رکی ۔ یہ کیسی جنگ ہے کہ ایک طرف جوہری طاقت کے جدید ترین اسلحہ سے لیس فوجی ، بندوقیں ، ٹینک ، میزائل اور جنگی طیارے ۔۔۔ اور دوسری طرف ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں، گولیاں روکنے کےلئے جرات سے لبریز سینے، بندوقوں کی دھاڑ کے جواب میں نعروں کی للکار ،فلسطینیوں کے لہو سے لتھڑے دن " یوم النکبہ " کو اسرائیل منظم انداز میں فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے اور ان کے مکانات کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کرتا آ رہا ہے ۔ 1948 سے لے کر آج تک مختلف حربوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے نکالنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں تقریباً 12.14ملین فلسطینی اپنی سرزمین پر زندگی گزارنے کے حق سے بھی محروم ہیں اور وہ ہمسایہ عرب ممالک مصر ، اردن ، لبنان اور شام میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہیں ۔ غاصب اسرائیل نے 15مئی 1948کو شمالی فلسطین کی 774 بستیوں پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد اب تک فلسطینیوں کے 531 شہروں اور قصبوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں 70 مرتبہ فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا ۔ جن میں کم سے کم 15 ہزار فلسطینی لقمہ اجل بنے ۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران مقبوضہ علاقوں سے 85سے 90فیصد فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے نکالا جا چکا ہے اور سیکڑوں آبادیاں اور گاؤں ملیا میٹ کر دیئے گئے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پناہ گزیں فلسطینی جن ہمسایہ ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں ان کو وہیں مستقل بسایا جائے اور ان کی وطن واپسی کا ہر امکان ختم کر دیا جائے۔
تازہ ترین