• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
یعتذرون …پارہ۱۱
دسویں پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان مخلص صحابہ کا تذکرہ فرمایا ہے، جو غزوہ تبوک میں شرکت کا پورا ارادہ رکھتے تھے لیکن وسائل کی کمی نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبے کی تعریف فرمانے کے بعد انہیں اجرِ عظیم کی خوشخبری سنائی ہے۔ نبی اکرمﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس پلٹ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بذریعہ وحی خبر دی کہ جب آپ واپس مدینہ پہنچیں گے تو منافق اپنے اپنے عذر لے کر پیش ہوں گے۔ آپﷺ کو تلقین فرمائی گئی ہے کہ انہیں صاف الفاظ میں بتلا دیں کہ ’’عنقریب اللہ اور اس کے رسولؐ تمہارے اعمال کو دیکھیں گے‘‘۔ اور تمہارے اعمال کی روشنی میں ہی تمہارے بارے میں فیصلہ ہوگا۔ دیہاتیوں (اعراب) کے دو گروہوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو مسلمانوں کے لئے بُرے وقت کا منتظر رہتا ہے اور اگر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑے تو اسے تاوان سمجھتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاکر اللہ کی راہ میں خوش دلی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ ان دونوں گروہوں میں پہلا گروہ ذلت اور پستی کی طرف جا رہا ہے جبکہ دوسرا گروہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگا۔ اسے نبی اکرمﷺ کا قرب اور اللہ کی جنت نصیب ہوگی۔دین میں سبقت لے جانے والے انصار و مہاجرین کو جنت کی خوشخبری سنانے کے بعد اہلِ نفاق کی ہٹ دھرمی اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا مفصل تذکرہ ہے۔ ان منافقین کا ایک گروہ وہ تھا جو اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے توبہ و استغفار کر رہا تھا۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول فرما لیں لیکن دوسرا گروہ وہ تھا جو آئے دن سازشیں کر رہا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے مسجدِ ضرار تک تعمیر کی۔ یہ سازش اتنی گہری تھی کہ انہوں نے اس مسجد کا افتتاح کرانے کے لئے نبی اکرمﷺ سے باقاعدہ وقت بھی لے لیا تاکہ کسی کو ان کے ناپاک ارادوں کے بارے میں شک نہ ہو یہی وہ مرحلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی اس سازش کا پردہ وحی الٰہی کے ذریعے چاک کر دیا اور مسلمانوں کو واضح الفاظ میں سمجھا دیا کہ ایسی مسجد جو مسلمانوں کو باہمی تقسیم کرنے والی اور جس کی بنیاد ایمان پر ہونے کی بجائے نفاق پر ہو، اسے مسمار کر دینا چاہئے۔ اللہ کے رسول کو ایسی مسجد کا افتتاح تو درکنار اس میں ایک لمحے کے لئے کھڑے ہونے کی اجازت بھی نہیں چنانچہ یہی وہ مرحلہ تھا جب نبی اکرم ﷺ کے حکم سے اس مسجد کو گرا دیا گیا۔ یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے اگر کسی مقدس جگہ کا سہارا بھی لیا جائے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور ہر وہ کوشش، جو مسلمانوں کی اجتماعیت کے خلاف ہو، ناکام بنا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مسجدِ ضرار کے برعکس مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے والوں کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں ’’اس میں ایسے مردانِ کار ہیں جو پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزہ رہنے والوں سے ہی پیار کرتا ہے‘‘۔آیت نمبر 111سے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لئے ہیں۔ یہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں کبھی تو دشمنِ خدا و رسول کو قتل کرتے ہیں اور کبھی خود اللہ کی راہ میں اپنی جان دے کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس تجارت کے بدلے میں انہیں جنت کی ابدی نعمتیں عطا فرمائے گا سچے اہلِ ایمان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع اور سجود کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ تمام صفات ایک سچے مومن کی کامیاب زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہیں، جنہیں اختیار کر کے ہر زمانے میں رضائے الٰہی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مشرکین کے لئے دعا مانگنے سے منع کیا گیا ہے جو اپنے شرک پر قائم رہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیمؑ کا حوالہ دیا گیا ہے جو اپنے باپ کے لئے اُس وقت تک دعا مانگتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت آ گئی تو انہوں نے دعا کا سلسلہ منقطع کر دیا۔آیت نمبر117سے ایک طرف تو غزوہ تبوک میں شرکت فرمانے والے تما م صحابہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو دوسری طرف ان تین صحابہ کی توبہ بھی قبول کی گئی ہے جو محض اپنی سستی کی بنا پر غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ یہ صحابہ کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ ان تینوں صحابہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس کوئی عذر اور بہانہ نہیں ہے یہ محض سستی اور کوتاہی تھی کہ ہم آپؐ کے ساتھ نہ جا سکے۔ چنانچہ یہی وہ مرحلہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان تینوں کے سوشل بائیکاٹ کا حکم دے دیا۔ اس کے ذریعے ایک طرف تو ان کی قوتِ ایمانی کو پرکھنا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کے نظم کو بھی جانچنا تھا۔ چنانچہ چشمِ فلک نے اس سے زیا دہ حسین منظر کبھی نہیں دیکھا کہ یہ تینوں صحابہ ایمان ویقین کے ایسے کوہِ گراں ثابت ہوئے کہ زمانے کا کوئی لالچ اور دباؤ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نہ ہٹا سکا دوسری طرف جیسے مدینہ کی پوری بستی کو سانپ نے سونگھ لیا ہوکہ کوئی بھی ان سے بات تک کرنے کا روادار نہ رہا۔ پورے پچاس دن اسی حالت میں گزرے کہ ایک ایک لمحے نے ان کی استقامت اور اطاعت کو عمل کی دنیا میں ثابت کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی توبہ کو نہ صرف قبول فرمایا بلکہ وحی الٰہی کے ذریعے اس کا اعلان فرما کر رہتی دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ جو لوگ غلطی کرنے کے بعد اللہ اور اس کے رسولؐ سے جڑے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوجاتا ہے اور ان کی زبان سے نکلنے والے توبہ و استغفار کے ہر لفظ کو شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے۔ اس ضمن میں اہلِ ایمان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ تمہیں ہر حال میں نبی اکرمﷺ کا ساتھ دینا ہوگا اور ان کے ساتھ مل کر دین کے غلبے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس راہ کی ہر مشکل پر تمہیں اجرِ عظیم ملے گا اور اس راہ میں خرچ ہونے والے ایک ایک پیسے پر اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت کی سعادتیں عطا فرمائیں گے۔ کفار کے سامنے جب بھی اللہ کی آیات پیش کی جاتی ہیں تو ان کے کفر اورنفاق میں مزید اضافہ ہوتا ہے اس لئے کہ ان کا دل اتنا سیاہ ہو چکا ہے کہ اس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی، لہٰذا ان کی زندگی کی طرح ان کی موت بھی کفر ہی پر ہوگی۔ زمانے کی گردشیں بھی انہیں سنوارنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں اس لئے کہ وہ کسی طرح کی نصیحت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آخر میں نبی اکرمﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ’’تمہارے اندر ایسے رسولؐ آ چکے ہیں جنہیں تمہاری مصیبت اور پریشانی پر تکلیف ہوتی ہے جو تمہارے فائدے کے بہت زیادہ حریص اور اہلِ ایمان پر بہت زیادہ شفیق اور مہربان ہیں‘‘۔ لہٰذا اگر اس کے بعد بھی تم نے پہلو تہی کی تو جان لو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، میں اسی پر توکل کرتا ہوں اس لئے کہ وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔
سورہ یونس
سورہ یونس مکی سورت ہے۔ اس میں ایک سو نو آیات اور گیارہ رکوع ہیں۔ اس سورت میں اسلام کے بنیادی ارکان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ توحیدِ الٰہی کو ثابت کیا گیا ہے۔ سورت کا آغاز قرآن مجید کی حقانیت کے دلائل سے ہوتا ہے اور ہر زمانے کے منکرینِ حق کو جواب دیا جا تا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ہم ایک انسان پر کلامِ الٰہی اتاریں اس لئے کہ ہماری طاقت کے مظاہرے تمہیں رات دن اللہ کی قوت اور طاقت کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ سورج کی روشنی، چاند کی نورانیت، رات دن کا آنا جانا اور زمین و آسمان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی طاقت پر ایک بہت بڑی عقلی دلیل ہے۔ انکار کرنے والے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود انکار پر اڑے ہوئے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا یہ انکار انہیں تباہی و بربادی کی طرف لے جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا مقدر جہنم کی آگ ہوگی، رہے وہ لوگ جو ایمان لا کر عملِ صالح پر مشتمل زندگی گزاریں گے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں بھری جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی رحمت کا معاملہ فرماتا ہے، اگر وہ انسانوں کو ان کے گناہوں پر فوری سزا دیتا تو ان کا فیصلہ بہت جلد چکا دیا جاتا لیکن وہ تو انہیں پلٹنے کے کئی مواقع دے رہا ہے۔ انسان جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو دن رات آہ و زاری کرتا ہے لیکن جونہی اس کی مصیبت ٹلتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر لیتا ہے، جیسے اسے اللہ تعالیٰ کی کبھی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ہے۔ کفار کا قرآنِ مجید پر اعتراض ہے کہ اس کے احکامات بڑے سخت ہیں، لہٰذا اے محمدﷺ انہیں یا تو تبدیل کر دیں یا کوئی دوسرا قرآن لے آئیں۔ آپؐ فرما دیجیے کہ یہ کام میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میرا کام تو کلامِ الٰہی کو من و عن پہنچا دینا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے چالیس سے زیادہ سال تمہارے اندر گزار دیئے ہیں۔ تم میرے کردار سے واقف ہو کہ میں کسی طرح کی تحریف کا روادار نہیں ہوں اور میرے دعوئے نبوت میں رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی شک نہیں ہے۔آیت نمبر 20سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی ہم انسان کو تکلیف کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لئے کوششیں تیز تر کر دیتا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی چالوں کا توڑ فرما کر رہے گا اور پھر ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طاقت کا اندازہ کرنا چاہتے ہو تو ذرا اس با ت پر غور کرو کہ جب تم سفر پر روانہ ہوتے ہو اور تمہاری کشتی عین سمندر کے درمیان ہچکولے کھانے لگتی ہے اور موت اپنا منہ کھولے تمہاری منتظر ہوتی تو وہ کون سی ہستی ہے جو تمہاری مدد کو پہنچتی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہی وہ مرحلہ ہے جب تمہارے خداوندانِ باطلہ تمہاری کوئی مدد نہیں کر پاتے تو تم صرف ایک اللہ کو پکارتے ہو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ تمہیں اس طوفان سے نجات دے دیتے ہیں تو تم دوبارہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے ہو۔ جان لو کہ انسانی زندگی کی مثال اس پانی جیسی ہے جو آسمان سے برسا تو زمین میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ پھر ہر طرف سر سبزی و شادابی نظر آنے لگی تو خزاں کے آہنی پنجے نے اس سب کو دبوچ کر ختم کر دیا اور یہ سب کچھ ہمارے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ یہی حال انسانی زندگی کا بھی ہے کہ اس پر جوانی کی بہاریں بھی آتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ بڑھاپے کے سائے اس کی خوبصورتی کو کم کر دیتے اور پھر موت کا حملہ اس کی ساری رونق چھین لیتا ہے۔ اس لئے زندگی کے ان لمحات کی قدر کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام کر کے ابدی نعمتوں کے مستحق بن جاؤ جہاں کی بہار پر خزاں نہیں اور جہاں کی زندگی ایسی جاوادانی ہے جسے موت کا خوف نہیں۔ یہ سلامتی کا وہ گھر ہے، جہاں کے باسیوں کے چہرے ترو تازہ اور جہاں کی نعمتیں ابدی ہوں گی، رہے وہ لوگ، جنہوں نے برائیاں کیں، کل قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان کا مقدر ذلت و رسوائی ہوگی۔آیت نمبر40سے عقلی دلائل سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو ثابت کیا گیا ہے اور صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے، مشرکین کے معبودانِ باطلہ بالکل بے بس ہیں۔ جب یہ مشرکین کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں دنیا کا وقت ایسا مختصر نظر آئے گا، جیسے پلک جھپکتے ہی سارا منظر تبدیل ہوگیا ہو۔ اس دن ہر شخص تمنا کرے گا کہ آج روئے زمین کے خزانے اس کے پاس آجائیں تو وہ انہیں بطور فدیہ دے کر اپنی جان بخشی کرالے لیکن ایسا ممکن نہ ہوگا اور یہ لوگ اپنے کئے کی سزا پا کر رہیں گے لہٰذا اے ساری انسانیت تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تمہارے پاس قرآن جیسی کتاب آ چکی ہے جو نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت کے سارے سامان لئے ہوئے ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور رحمت ہے، لہٰذا اس کتاب پر ایمان لا کر اس عظیم نعمت کی قدر کرو۔ تم جس بھی حالت میں ہوتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ آگاہ رہو کہ اولیاء اللہ کو نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ کسی غم سے دوچار ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لا کر اس کا تقوٰی اختیار کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران ہو جا تے ہیں۔آیت نمبر 71سے حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت یونسؑ کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ کا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچایا۔ جنابِ نوحؑ نے اپنی قوم کو صاف صاف بتا دیا کہ میں اس پیغام کے ذریعے تمہاری خیر خواہی چاہتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہو جاؤ لیکن قوم نے ان کی اس خیر خواہی کی قدر نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا ان پر اس شان سے برسایا کہ تباہی و بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ نے اللہ کا پیغام فرعون اور اس کی رعایا کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے تکبر سے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ محض جادو ہے اور ہم اس کا مقابلہ کریں گے لیکن جب عصائے موسوی نے جادوگروں کے طلسم کو توڑ دیا تو فرعون اپنے ظلم میں اور آگے بڑھنے لگا۔ اس کا ظلم اور جور اس قدر شدید تھا کہ لوگ حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے سے ہچکچہانے لگے لیکن حضرت موسیٰؑ نے اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھی اور اپنی قوم کو حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی اللہ کی عبادت کے لئے کچھ جگہیں مخصوص کرلو اور اللہ تعالیٰ کی بندگی بجا لاؤ۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہیں فتح یاب فرمائیں گے اور تمہارا دشمن تمہاری نگاہوں کے سامنے تباہ و برباد ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ مرحلہ بھی آیا جب حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو رات کے اندھیرے میں لے کر نکلے، فرعون نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا اور پھر وہ منظر بھی لوگوں کے سامنے تھا کہ بنی اسرائیل پانی کی موجوں کے بیچوں بیچ امن و سلا متی کے ساتھ گزر گئے اور فرعون پانی میں ایسی ڈبکیاں کھانے لگا کہ اسے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ اسے اپنی جھوٹی خدائی کی کشتی ڈوبتی ہوئی نظر آئی اور اس نے ایک اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا لیکن اسے جواب دیا گیا کہ اب بہت دیر ہو چکی لہٰذا تمہارے ایمان کو قبول نہیں کیا جا سکتا، اب تمہاری موت اسی کفر اور شرک پر ہوگی، البتہ ہم تیری لاش کو کائنات کے لئے عبرت کا سامان بنا دیں گے تاکہ رہتی دنیا کے متکبرین کو معلوم ہو کہ تکبر اور سرکشی کا انجا م کیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے کہ وہ جب کسی بھی قوم کے بارے میں عذاب کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اسے تبدیل نہیں کرتا، اس سے استثناء تاریخِ انسانی میں صرف ایک بار ہوا، جب اللہ تعالیٰ نے قومِ یونس کے بارے میں عذاب کا فیصلہ تو فرمالیا لیکن جنابِ یونسؑ سے فرمایا کہ اپنی قوم میں موجود رہیئے، جب میرا حکم آجائے تو یہاں سے ہجرت کیجئے۔ ادھر حضرت یونسؑ نے سوچا کہ ان بدبختوں کے بارے میں عذاب کا فیصلہ تو ہو ہی چکا ہے، لہٰذا یہاں رہنے کا کیا فائدہ؟ لہٰذا وہ آخری ہدایت کا انتظار کئے بغیر ہی نینویٰ سے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت یونسؑ کو تو راستے میں مچھلی نے نگل لیا لیکن قوم نے ان کی غیر حاضری کو بھانپ لیا اور لگے توبہ و استغفار کرنے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکال کر ان کی طرف دوبارہ مبعوث فرما دیا اور ان تمام کی توبہ و استغفار کو قبول فرمالیا۔ اس واقعے سے یہ پیغام دینا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں میں بالکل آزاد ہیں اور وہ کسی بھی مرحلے پر انسان کی توبہ واستغفار قبول فرما سکتے ہیں۔ سورت کے آخر میں نبی اکرمﷺ کو فرمایا گیا ہے کہ آپ دینِ حق کی دعوت کا صاف الفاظ میں اعلان فرما دیں اور کفار و مشرکین کو بتا دیں کہ میں اور میرے پیروکار تمہارے راستے کی پیروی ہرگز نہیں کر سکتے۔ اب جو بھی اس حق کو قبول کرے گا، ہدایت سے سرفراز کر دیا جا ئے گا اور جو گمراہی کے راستے کو اختیار کرے گا وہ اپنے اعمال کا خود ہی ذمہ دار ہے۔
سورہ ہود
سورہ ہود مکی ہے۔ اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کی حقانیت اور ضرورت کو پورے دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے انبیاء کی امتوں کی مثال دے کر اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سلسلے کو ہر امت میں جاری و ساری رکھا ہے۔آغازِ کلام میں قرآنِ مجید کی حقانیت کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو شرک سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہوجائے گا اور تمہیں اپنی رحمتیں عطا فرمائے گا اور اگر تم انکار کرو گے تو اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
تازہ ترین