• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور امرجیت سنگھ دلت کی مشترکہ تصنیف’’دی اسپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے سیاسی، عسکری، صحافتی اور عوامی حلقوں میں خاصی ہلچل برپا ہے۔ کتاب میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلرز کا بن لادن آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر کئی حساس موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔کتاب کے مندرجات کی صداقت پر سوالات اٹھائے جانے کے ساتھ ساتھ بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ایسے نہایت حساس موضوعات جن میں رازداری کے تقاضوں کو ہمیشہ آخری حد تک ملحوظ رکھا جاتا ہے،انہیں کس کی ایماء پر اس کتاب میں موضوع گفتگو بنایا گیا اور یہ اقدام کس کے مفاد میں ہے۔ جنرل اسد درانی کی جانب سے کئی ایسے انکشافات بھی کیے گئے ہیں جو پاکستان کے قومی اور ریاستی بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ عسکری اور سیاسی دونوں سطحوں پر اس کتاب کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق سیکوریٹی ذرائع کا موقف ہے کہ کتاب میں بہت کچھ حقائق کے منافی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بتایا ہے کہ آرمی چیف کی ہدایت پر اسد درانی کو ان بیانات پر پوزیشن واضح کرنے کیلئے پیر 28 مئی کوجی ایچ کیو طلب کرلیا گیاہے اور انہیں فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی ۔ یہ یقیناًایک درست فیصلہ ہے اور امید ہے کہ اس سے اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں گے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی متنازع کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائے جانے کامطالبہ کیا ہے اور معاملے کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔جمعہ کو قومی پارلیمان کے ایوان بالا میں سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے نکتہ اعتراض پر بولتے ہوئے اس معاملے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ قطعی جائز سوال اٹھایا کہ کیا جنرل اسد درانی نے وفاقی حکومت سے کتاب لکھنے سے قبل اجازت لی تھی ؟میاں رضا ربانی کا کہنا تھاکہ اگر یہ کتاب کسی عام شہری یا پاکستانی سیا ستد ا ن نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا، کتاب لکھنے والے سیاستدان پر نہ صرف غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے بلکہ اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا، رضاربانی نے تمام اہل وطن کے احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ کہ ایک طرف انڈیا اور پاکستان کے تعلقات بد ترین سطح پر ہیں اور دوسری طرف ایک ایسی کتاب کی رونمائی ہو رہی ہے جو دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے لکھی ہے۔ حالات کے تناظر میں یہ سوالات یقیناًجواب کے مستحق ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ ان انکشافات سے کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟ اس بارے میں حکومت یا عسکری قیادت سے اجازت لی گئی یا نہیں؟ اگر یہ اجازت دی گئی تو کیوں دی گئی؟ اور اگر یہ سب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے علم میں لائے بغیر کیا گیا تو اس پر سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟ دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ اسد درانی پر سابق ’را‘ چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر قانونی پابندی شاید نہ ہو لیکن انہیں بطور فوجی افسر تاحیات یہ پابندی سمجھنی چاہئے، ان کے بقول فوجی افسروں پر جی ایچ کیو کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ اخلاقی پابندیاں حب الوطنی کے تناظر میں ہوتی ہیں۔دو سابق انٹیلی جنس سربراہان کے کچھ کرنے سے پاک بھارت مسائل حل نہیں ہوں گے، نہ حکومتیں اپنی پالیسیاں بدلیں گی نہ حکمت عملی میں تزویراتی تبدیلیاں آئیں گی لیکن یہ خدشہ ضرور ہے کہ دونوں ایسی باتیں کرجائیں جن سے نئے تنازعات اٹھ کھڑے ہوں۔

تازہ ترین