• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی اور خونریزی کے اس عہد میں اگرچہ پوری دنیا غیر محفوظ ہو گئی ہے لیکن امریکہ اور اس کے حواری ممالک کو ان ملکوں میں تصور کیا جاتا ہے ، جو کسی حد تک محفوظ ہیں ۔ ان ممالک میں کبھی سب سے زیادہ محفوظ جگہیں تعلیمی درس گاہیں یعنی اسکولز اور یونیورسٹیز ہوتی تھیں لیکن اب یہ ادارے دنیا کے سب سے زیادہ غیر محفوظ مقامات میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ جس شخص کی حیوانی جبلت اس پر حاوی ہوتی ہے ، وہ گن اٹھاتا ہے اور کسی درس گاہ میں جا کر قتل عام کرتا ہے اور اپنی اس حیوانی جبلت کی تسکین کرتا ہے ۔ امریکہ میں گزشتہ تین سالوں کے دوران 18مئی 2018 ء کو اس طرح کے قتل عام کا چوتھا واقعہ رونما ہوا ہے ۔ جب ایک نوجوان امریکی ریاست ٹیکساس کے سانتافی ہائی اسکول میں داخل ہوا اور 10بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیا ۔ مقتولین میں 10طلباء و طالبات اور 2 اساتذہ شامل تھے ۔ ان میں پاکستان کی ایک بیٹی سبیکا شیخ بھی تھیں ، جو تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئی تھیں۔ سبیکا کو عید الفطر پر گھر آنا تھا لیکن 5ویں روزے پر ان کی میت ان کے والدین کو موصول ہوئی۔ سبیکا جیسی ذہین بیٹی کا جو مستقبل نظر آرہا تھا ، وہ پاکستان کے ہر نوجوان کا آئیڈیل ہو سکتا ہے لیکن سبیکا کے انجام سے اتنا ہی زیادہ لوگوں کو صدمہ ہوا اور پورا ملک سوگوار ہو گیا ۔ کیا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی لاشیں واپس آتی ہیں ؟ یہ ایسا سوال ہے ، جو پاکستانیوں سے زیادہ امریکیوں کے لیے پریشان کن ہونا چاہئے ۔
امریکہ ہر سال ایک پروگرام کے تحت دنیا بھر سے 900 طلباء کو اپنے ہاں تعلیم دینے کے لئے بلاتا ہے ۔ ’’ کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اسٹڈی ( YES ) پروگرام کے تحت دنیا بھر کے ملکوں سے طلباء کا تبادلہ کیا جاتا ہے ۔ امریکا میں بلائے گئے بچوں کو کسی امریکی خاندان کے ساتھ رکھا جاتا ہے ۔ یہ بچے اس خاندان کا حصہ بن کر رہتے ہیں تاکہ وہ امریکا کی تہذیب ، ثقافت اور سماجی مزاج کو سمجھ سکیں ۔ یہ پبلک ڈپلومیسی کا ایک پروگرام ہے میزبان خاندان کی اس پروگرام کے تحت مالی معاونت کی جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی معاشرہ اعلی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا حامل ہے ۔ دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر ممالک سے جانے والے بچے امریکی سماج اور میزبان خاندان کے مہذب رویوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ کراچی کی 17 سالہ سبیکا کی یاد میں ہوسٹن میں جو تقریب منعقد ہوئی ، اس میں سبیکا کے میزبان خاندان نے بھی شرکت کی ۔ خاندان کے میزبان سربراہ نے تقریر کرتے ہوئے انتہائی جذباتی انداز میں سبیکا کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ سبیکا ان کے گھر میں آئیں تو ایسے محسوس ہوا ، جیسے خدا کا انہیں کوئی قیمتی تحفہ ملا ہے ۔ وہ ان سے پیار کرتی تھیں اور انہیں سبیکا سے پیار تھا ۔ سبیکا یہاں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئی تھیں اور انہوں نے پاکستان کی صحیح نمائندگی کی ۔ میزبان خاتون خانہ نے بھی سبیکا کو یاد کرتے ہوئے ہر لفظ پر آنسو بہائے ۔ میزبان گھر کے بچوں نے سبیکا کے قتل پر اس طرح اپنے غم کا اظہار کیا ، جس طرح بہنیں اور بھائی کرتے ہیں ۔ امریکی حکمرانوں ، میڈیا اور عوام نے بھی سبیکا کے اہل خانہ اور پاکستانی عوام سے اس سانحہ پر انتہائی دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس قدر مہذب معاشرے میں انتہائی محفوظ جگہ پر ہماری بیٹی قتل کیوں ہوئی ؟
ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن دہشت گردی کرنے والے کے ذہن میں بھی اس انتہائی بہیمانہ اور غیر انسانی فعل کا بھی کوئی جواز ہوتا ہے ۔ دہشت گردوں کی ذہنیت اور سوچ کو پاکستان کے عوام نے کبھی قبول نہیں کیا اور اسے ہمیشہ مسترد کیا ۔ پاکستان کے لوگوں نے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور اس جنگ میں 70 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاروں اور سویلین نے جانیں قربان کیں ۔ قطع نظر اس کے کہ دہشت گردی کو کن عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کے تحت پروان چڑھایا اور کس طرح پاکستان سمیت تیسری دنیا خصوصاً عالم اسلام کا امن تباہ کیا گیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سمیت ان ترقی پذیر ممالک میں دہشت گردی کے خلاف مزاحمت موجود ہے ۔ سبیکا سمیت امریکا اور مغربی ممالک میں معصوم لوگوں کے قاتلوں کو صرف ذہنی مریض قرار دے کر ’’ مہذب ‘‘ معاشروں کی اصل حقیقت کو نہیں چھپایا جا سکتا ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ جو معاشرے استحصال اور استبداد کی بنیاد پر خوش حال ، پر امن اور مہذب بنتے ہیں ۔ ان کے صرف ذہنی مریضوں کا ہی نہیں بلکہ بظاہر صحت مند لوگوں کا بھی یہی رویہ ہوتا ہے ۔
سبیکا کے قتل پر امریکیوں کے مہذبانہ ردعمل سے ہم متاثر ضرور ہیں ۔ اس رویے سے انہوں نے یہ باور کرایا ہے کہ وہ انسانی زندگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن سبیکا کے سانحہ سے چند دن قبل پاکستانی نوجوان کو قتل کرنے والے ایک امریکی کو خصوصی طیارے کے ذریعہ امریکا لے جایا جاتا ہے ۔ کیا وہ قاتل بھی ذہنی مریض تھا یا امریکی مائنڈ سیٹ ’’ ابنارمل ‘‘ ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں جس طرح ذہنی مریض آئے دن قتل عام کرتے ہیں ، یہ ان اعلیٰ اقدار والے انتہائی مہذب معاشروں کی اصل حقیقت کے بارے میں ایک ایسا بنیادی سوال ہے ، جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے امریکی اور مغربی معاشروں کو 18 ویں اور 19 ویں صدی کے فلسفیوں ، دانشوروں اور سیاسی دانشمندوں کی ضرورت ہے ، جنہوں نے نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا کو نئی راہیں دکھائی تھیں ۔ فوری طور پر امریکہ کو سبیکا کے والد عبدالعزیز شیخ کی اس تجویز پر غور کرنا چاہئے کہ ٹرمپ انتظامیہ ’’ گن پالیسی ‘‘ پر ان کی بچی کی قربانی کے صدقے غور کرے تاکہ ہر ایک کے پاس مہلک ہتھیار نہ ہوں ۔ سبیکا کے والد کی اس بات کو اگر وسیع تر تناظر میں بیان کیا جائے تو وہ یہ تجویز ہو گی کہ امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادی گزشتہ 8 صدیوں سے جنگ اور اسلحہ والے معاشی نظام کو تبدیل کرنے پر غور کریں ۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا میں جتنی بھی سبیکا جیسی بیٹیاں اور ان کے بھائی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں ، وہ اسی نظام کا منطقی نتیجہ ہے ۔ اس نظام کو چلانے والے اصل میںجس ذہنیت کے حامل ہیں ، وہی ذہنیت سبیکا کے قاتل ذہنی مریض کی بھی ہے ۔ ورنہ ذہنی اور نفسیاتی مریض غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں بھی ہوتے ہیں ۔ وہ تو اس طرح قتل عام نہیں کرتے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین