• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات ہے کوئی 1845ء کے لگ بھگ کی۔ لاہور کے ڈائریکٹر آف پولیس میجر میک گریگر ایک روز گھوڑے پر سوار ہو کر بازار سے گزر رہے تھے کہ ذہنی طور پر معذور ایک عورت نے انہیں روک لیا۔ ریزیڈنٹ کو یہ احوال معلوم ہوا تو اس نے ایک حکم جاری کردیا کہ دربار کو ذہنی مریضوں کے لئے ایک پناہ گاہ تعمیر کرنی چاہئے۔ اس وقت پنجاب میں ذہنی طور پر معذور افراد کو علاج معالجے کی سہولتیں پہنچانا وقت کی اہم ضرورت اور ایک مرکز کا قیام اچھوتا خیال تھا، جو سب سے پہلے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ریجنسی کے دوران اسٹیٹ فزیشن ڈاکٹر ہونگ برجر نے پیش کیا تھا۔ اس ڈاکٹر ہونگ برجر نے ’’مشرق میں 35سال‘‘ نامی کتاب اپنی یادداشتوں پر لکھی تھی۔ ڈاکٹر ہونگ برجر لکھتے ہیں کہ ریزیڈنٹ نے میرے ساتھ مشورہ کیا ’’اس کے بعد کئی ذہنی مریضوں کو میرے اسپتال پہنچا دیا گیا۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان مریضوں کو دیکھنے کے لئے آگئی، میں نے ان مریضوں کا علاج کیا اور وہ صحت مند ہوگئے۔ میں نے یہ بات راجہ تیجا سنگھ کو بتائی اس نے کہا ان مریضوں کو ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ میںنے ان صحت مند ہونے والے افراد کو راجہ کے آگے پیش کیا مگر راجہ تیجا سنگھ نے کوئی دلچسپی نہ لی۔ میں نے دربار کے حکم سے ان افراد کو ان کے گھروں میں بھیج دیا‘‘۔
مئی 1849ء میں پاگل خانے کے بورڈ آف ایڈمنسٹریشن نے پناہ گاہ کی نگرانی کا کام ریذیڈنٹ سرجن ڈاکٹر ہیتھ اوے، 1852میں ڈاکٹر سی ایمر سمتھ اور 1870ء میں ڈاکٹر سکریوں نے سنبھالا۔ کبھی یہ ذہنی صحت کی علاج گاہ انارکلی کے قریب واقع تھی جہاں آجکل ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کالجز وا سکولز کے دفاتر ہیں۔
موجودہ مینٹل اسپتال سردار لینا سنگھ کی چھائونی میں بنا ہوا ہے۔ یہاں پر کبھی سکھ سردار بھی رہائش پذیر تھے۔ پھر یہاں پر ٹھگوں کی جیل بنائی گئی۔ ویسے ٹھگ تو اب پورے ملک میں ہیں اب تو ہر جگہ ٹھگوں کی جیل ہونی چاہئے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ یہ بڑی تاریخی عمارت ہے اور اس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی یہاں پولیس کے گھڑ سوار دستے بھی ہوتے تھے اور کبھی یہاں السی کے پودوں کی کاشت بھی ہوتی تھی۔ 1863ء میں اسے پاگل خانے میں تبدیل کردیا گیا اور اس سڑک کا نام امرتسر روڈ ہوتا تھا۔
موجودہ مینٹل اسپتال 52ایکڑ کے وسیع رقبے پر مشتمل ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ اس وسیع رقبے پر سروسز اسپتال والے نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو اس پر قبضہ کرلیں حالانکہ دونوں سرکاری ادارے ہیں۔ گورنمنٹ مینٹل اسپتال (پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ) کے پاس بڑے وسیع باغات ہیں مگر سب بے ترتیب ہیں۔ اس کو باقاعدہ اسپتال کہنا بھی زیادتی ہے کیونکہ مریضوں کو لوہے کے دروازوں اور جنگلوں کے پیچھے بندکیا ہوا ہے۔ بعض مریضوں کے بلاک میں صورت حال بڑی ہی ابتر ہے، سخت بدبو بھی ہے۔ چودہ سو ذہنی مریض ہر وقت یہاں موجود ہوتے ہیں اور برس ہا برس سے یہاں کے حالات ابتر ہیں۔ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا جنہوں نے یہاں کا دورہ کیا اور فوری طور پر اس کی حالت سدھارنے کے لئے ایک کمیٹی بنانے کا کہا۔
چنانچہ حکومت پنجاب کے محکمہ صحت کے شعبہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے فوری طور پر ملک کے معروف ماہر نفسیات کے سربراہ (MIND) اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیات کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر سعد بشیر ملک کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی اور اس کمیٹی نےاپنے قیام کے صرف ایک ہفتے میں دو میٹنگیں اور پورے اسپتال کا رائونڈ اور اسٹاف سے میٹنگیں بھی کر ڈالی ہیں۔ اس کمیٹی میں ماہرین نفسیات، قانون دان اور صحافی بھی شامل ہیں۔
کاش کوئی جا کر دیکھے کہ مینٹل اسپتال میں ذہنی مریض کس اذیت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ کاش کوئی دیکھے کہ یہ زندگی بھی کیسی عجیب ہے۔ آج تک کسی ادارے اور این جی او کو خیال نہیں آیا کہ وہ ان ذہنی مریضوں کے لئے کچھ کرتی۔ مینٹل اسپتال کے ماحول کو بہتر اور خوبصورت بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ آج بھی ایک بھوت بنگلہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ چیلوں کے غول کے غول یہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔ باغات بے رونق ہیں۔ ہر طرف ماحول میں اداسی اور ڈیپریشن ہے۔ کاش یہاں کے وسیع رقبے اور باغات حکومت کو خوبصورت بنا سکے۔
مینٹل اسپتال میں اس وقت چودہ سو مریض رہتے ہیں جن میں چار سو خواتین شامل ہیں۔ پاکستان میں کس تیزی کے ساتھ ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس کا اندازہ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ یہاں آئوٹ ڈور میں روزانہ سات سو کے قریب مریض آتے ہیں اور ہر ڈاکٹر تقریباً سو مریضوں کو روز دیکھتا ہے۔ یہاں کی صورت حال بالکل خوشگوار نہیں، بے شمار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ اسوقت تین سو تئیس (323)پوسٹیں خالی پڑی ہوئی ہیں جن میں ڈاکٹر، سائیکالوجسٹ، ریڈیالوجسٹ، فزیشن، نیوروسائیکالوجسٹ، Anaesthetist ، پی ایم او، اے پی ایم او، ایس ایم او، آر ایم او، ایم او، پی ڈبلیو ایم او، اے پی ڈبلیو ایم او، ایس ڈبلیو ایم او، ڈبلیو ایم او، ڈپٹی نرسنگ سپرنٹنڈنٹ، ہیڈ نرس، چارج نرس شامل ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ستر برس میں کسی حکومت نے مینٹل اسپتال کی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔ جو خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہیں ان کے وارڈز کی بھی حالت قابل ستائش نہیں۔ مینٹل اسپتال کو ایک بہترین علاج گاہ بنانے کے لئے بہت سارے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو ڈاکٹرز، نرسیں، پیرامیڈیکل اسٹاف ان ذہنی مریضوں کو ڈیل کرتا ہے ان کے اندر ہمدردی کا ایک خاص جذبہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ ذہنی مریض عام مریضوں سے زیادہ توجہ کے حقدار ہیں۔ دوسرے یہاں پر عملے کی شدید کمی ہے اور حکومت نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بعض اسپتالوں میں پانچ دفعہ جا چکے ہیں مگر افسوس انہوں نے یہاں ایک بار بھی آنے کی زحمت نہیں کی اگر وہ اپنے دور اقتدار میں صرف دو مرتبہ بھی یہاں آجاتے تو یقینی طور پر مینٹل اسپتال کی حالت بہتر ہو جانی تھی۔ توقع ہے کہ ڈاکٹر سعد بشیر ملک کی سربراہی میں مینٹل اسپتالوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔
گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے میو اسپتال کے سرجیکل ٹاور کا افتتاح کردیا۔ یہ سرجیکل ٹاور ویسے تو چودھری پرویز الٰہی کےدور حکومت میں شروع ہوا۔ چاہئے تو یہ تھا دو چار سال میں اس کو بھی مکمل کردیا جاتا۔ الیکشن کے بعد پنجاب میں ن لیگ کی حکومت آگئی اور اس کی تعمیر کا منصوبہ التوا میں چلا گیا اور 10برس تک اس کی تعمیر ممکن نہ ہوسکی۔ 2008ء میں شروع ہونے والا سرجیکل ٹاور 2018ء میں مکمل ہوا، اس دوران اس کی تعمیر کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا، ہزاروں مریضوں اور ڈاکٹروں کی علاج اور تربیت کی سہولت بروقت نہ مل سکی۔ 500ملین کا منصوبہ 2700ملین کا ہوگیا۔
ہیلی پیڈ اور دو منزلیں بھی غائب کردی گئیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ سرجیکل ٹاور کا آڈٹ کرائے اور اس تاخیر کے ذمہ داران سے پوچھا جائے۔ سرجیکل ٹاور کو بہت پہلے مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ اس عرصے میں جومریضوں اور زیر تربیت ڈاکٹروں کو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون، مشینوں اور آلات کی خریداری کس طرح کی گئی ہے اس کے بارے میں بھی معلوم کیا جائے کہ آیا وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرجیکل ٹاور کو بعدمیں کیا اسی طرح (Maintain) مینٹین رکھا جائے گا؟ ہمارے ہاں چیزیں تو بن جاتی ہیں لیکن بعد میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔یہ معاشرے کا المیہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کو مینٹل اسپتال میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور تیس تیس سال تک پلٹ کر خبر نہیں لیتے۔جوانی مقید ہو کر گزارنے والے ذہنی مریض اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین