• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا منی لانڈرنگ کرنیوالے سیاستدان کبھی اپنی ”کریکڑلانڈرنگ “بھی کر پائیں گے؟ کیا پاکستان واقعی اندھیرنگری بن چکا اور چوپٹ راج ہی ہمارا مقدر ہے؟ کیا قومی رہنماملک میں بسنے والوں کو حقیر کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر سمجھتے ہیں؟ کیا یہ لوگ ایک تسلسل کے ساتھ لوٹ کھسوٹ، چور چکاری کا بازار گرم رکھیں گے ؟کیا اقرارِ جرم، توبہ اور معافی کے بغیر جرائم پیشہ آدمی مہذب معاشرے کا حصہ بن سکتا ہے؟ قومی رہنماؤں کے ماضی میں جھانکیں تو نامہ ٴ اعمال میں سوائے گنا ہ،لوٹ کھسوٹ، اداروں کی پامالی‘ منی لانڈرنگ ‘ عدالتوں کی تضحیک ‘ قومی دولت کا ضیاع‘ غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔مستقبل کے عزائم دیکھیں ہمارے خواب چھیننے کے درپے ۔
سیاستدان ارب پتی ،عوام کنگلی اور ملک کنگال ۔ آج ان کی اولادیں بیرون ملک ہم سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر سے کھیل رہی ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ معاشی بحران کی گھنگور گھٹائیں وطن ِ عزیز کے افق پر منڈلا رہی ہیں۔ جو چند مہینوں میں عوام الناس کے کڑاکے نکالنے کو ہیں۔حوصلہ افزا خبر۔اخلاقی قد صفر تو تھا ہی انشاء اللہ رہنماؤں کا وقت بھی پورا ہوچکا۔عمر رسیدہ لیکن پْرعزم اصغرخان چٹان بن گیااور 16 سال کے تکلیف دہ انتظار کے بعد اپنے صبرومحنت کا پھل حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ رشوت دینے اوررشوت لینے والے دونوں فریق انتہائی اہم ۔خان صاحب دونوں کو قانون کی گرفت میں لانے پر قوم کی طرف سے دلی مبارک بادقبول ہو۔
سپریم کورٹ نے نہ صرف پٹیشن منظور کر لی بلکہ جرنیلوں کو آئین کی خلاف ورزی اور فوج کے مقدس ادارے کو بدنام کرنے کا موردِالزام بھی ٹھہرایا۔ مزید فرمایا کہ ان لوگوں نے دھاندلی کے ذریعے پیپلز پارٹی کا را ستہ روکا اور جعل سازی سے نواز شریف کو پہلی دفعہ وزیراعظم بنوایا لہٰذا سخت کارروائی کا حکم دیاجاتا ہے۔ساتھ ہی FIA کو ہدایت دی کہ جن سیاستدانوں نے رشوت لی ہے ان سے رقم منافع کے ساتھ واپس لی جائے۔اس کے علاوہ فیڈریشن کی نشانی صدر ہاؤس سیاسی سرگرمیوں سے باز رہے ۔یہ ہے سپریم کورٹ کا مختصر حکم نامہ۔کیا تعمیل ہو گی؟
جرنیلوں کا ایک پہلو قابلِ ستائش کہ رقوم تقسیم کرنے کا اقرار کر لیا۔ نوازشریف کو تو چپ لگ گئی یا سانپ سونگھ گیا ۔ حواری و لکھاری تاریخ کو ”اگرمگر“کے ساتھ توڑنے موڑنے میں مصروف ۔عذرِگناہ کی تلاش میں ابتری کی پروا کیے بغیر۔حالانکہ مالکوں پر کڑا وقت ۔چھاج جہاں حالت ِ سکتہ اور عالمِ نزاع میں ہے سو سوراخوں والی چھلنی سپریم کورٹ کے فیصلے میں مین میخ نکالنے بلکہ نہ ماننے کے دہانے پر ۔ بیگم صاحبہ جن حضرت کو فوج کا ٹاؤٹ سمجھتی تھیں وہ فیصلے کی نفی میں مصروف اورFIA سے تحقیق کروانے سے انکاری ۔ حضرت کے فرموداتِ عالیہ پر نظر ڈالیں تویوں لگے گا کہ یہ صحیفہ ٴ آسمانی ہے۔ نواز شریف کے سکوت میں محترم جناب عارف نظامی نے ارتعاش پیدا کر دیا کہ نواز شریف نے سینئراخبارنویسوں کی موجودگی میں ISI سے پیسے پکڑنے کا اعتراف کیا ۔یہاں میری الیکشن کمیشن سے گزارش ہے کہ وہ محفل میں موجود حضرات سے بیان حلفی لیں تاکہ اس قبیل کے لوگوں کو واصلِ جیل کریں اور سیاست ایسے گند سے پاک ہو۔
کسی مہذب معاشرے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیاستدان اپنی حکمرانی کے دوران اپنی دولت اور اثاثوں میں کئی گنا اضافہ کریں۔ اداروں کی بے توقیری کریں۔ ملک کو حلوائی کی دوکان بنا کر اپنے عزیزواقارب کی فاتحہ خوانی پڑھیں اور جیل سے باہربھی ہوں۔ یہ مال ودولت کی کیسی اشتہا؟ یہ طاقت کا کونسا نشہ؟
جملہ ہائے معترضہ 7 اکتوبر کو ”دخترِشہباز“ ایک بیکری میں تشریف لے جاتی ہے ۔ ایک غریب پر بہیمانہ تشدد اور اغوا صرف اس لیے کہ وہ بند اوقات میں سودا بیچنے پر تیار نہیں ہوا۔ بیڑہ غرق ہوکیمرہ کی آنکھ کا اور سوشل میڈیا کا جس نے ملک میں طوفاں برپا کر کے قومی میڈیا کو متوجہ کیا کہ پہلے دن سے ہی مسلم لیگ ن کے کارندے خشک ہونٹوں پر خشک زبان پھیرتے نظر آئے۔ شہباز صاحب کی حسِ ظرافت پھڑکی اور خادمِ اعلیٰ چی گویرا (CHE GUEVARA) نظر آئے ۔پہلے ہلے میں غریب کے بدلے غریب کا قانون نافذ کیا جب پولیس اہلکاروں کے جیل میں جانے سے بھی طوفان تھمنے میں نہ آیا تو حسِ عدلِ جہانگیری بے چین ہوئی اور داما دکو اشک شوئی کے لیے چند گھنٹوں کے لیے جیل بھجوا دیا۔ لیکن دو سوال تشنہ طلب کہ”دخترِشہباز“ کو جیل میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ اور ایلیٹ فورس کی سہولت جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں شاہی خاندان کو میسر ہے جبکہ پورا لاہور جرائم پیشہ لوگوں کے نرغے میں ہے وہ کس کھاتے میں مامور ہے؟۔حضور جب گھونگلوں سے مٹی جھاڑیں گے تو صرف لواحقین و ہمنوا ہی طبلہ بجائیں گے۔ باقی شاید بغلیں بھی نہ بجا پائیں۔
سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ نے آشکار کیاکہ ہمارے سیاستدان کو گندگی کے ڈھیر سے بھی روپیہ اٹھانے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتی۔ جمہوری یا سوشلسٹ نظام کا نفاذ یا پورے ملک میں نیکی ، تقوی اور جہاد کی ترویج یہ حضرات کسی بھی مدمیں روپیہ پکڑنے میں نہیں شرماتے بلکہ وراثتی حق سمجھتے ہیں۔کارندے اور لواحقین کس اصول کی نفی میں مصروف ہیں۔ریاست کی حیثیت ان کے نزدیک غریب کی جورو سے زیادہ کچھ نہیں۔جہاں زرداری قبیلہ بہت سارے نشانات چھوڑ جاتا ہے وہاں شرفاء کے کسب کا کمال کہ نشانِ واردات مجال ہو کہ رہ جائے۔
جنرل اسد درانی کا بیان میرا قضیہ نہیں۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کا ماضی داغدار ضرور لیکن قوم کا مستقبل وابستہ نہیں۔ بات دونوں میاں صاحبان کے پیسے پکڑنے کی بھی نہیں ۔ بات ایجنسیوں کے ہرکارہ بننے کی بھی نہیں۔ میری تشویش صرف یہ ہے کیا نواز شریف کو فوجی لیبارٹری میں محنت شاقہ کے بعد ایسے گل کھلانے کے لیے تشکیل دیا گیاتھا ؟ اقتدار کے پہلے زینہ پر قدم رکھتے ہی جناب کا پیشہ اور مشغلہ ایک ہو گیا یعنی” قومی اداروں کو پامال اور مال“۔ فوجی بھائیوں کا غصہ بالکل ناجائز کہ وزیراعظم بنتے ہی اپنے آپ کو سچ مچ کا وزیراعظم کیوں سمجھنا شروع کر دیا ” ہماری بلی ہمیں کو میاؤں“ اپنی تخلیق کی گستاخی پر غصہ کی گنجائش موجود لیکن اداروں کو پامال اور مال بنانے پر غصہ کیوں نہیں۔ تعاون کیوں؟۔
1990کے الیکشن سے چند ہفتے پہلے میری موجودگی میں غلام اسحاق خان نے فرمایاکہ ایک دوست ملک سے آنے والے 30کروڑ روپے جو بے نظیر کے خلاف No Confidenceپر صرف ہونے تھے اْسکا بڑا حصہ میاں نواز شریف صاحب اینٹھ گئے۔اب اللہ اللہ کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے بات چل نکلی اب دیکھئے کہاں تک پہنچے ۔حواریوں لکھاریوں کے لیے انتباہ۔ یہ فیصلہ پہاڑ سے اترتا ہوا پانی ہے۔اپناراستہ بھی متعین کرے گا اور رکاوٹ بننے والوں کے لیے بھیانک تباہی بھی لائے گا۔
سیانے فرما رہے ہیں کل کے60 لاکھ روپے آج کے 35 کروڑ روپے ہیں جو شاید ہمارے قائدین کی داڑھ بھی گیلی نہ کر پائیں اور بقول صدیق الفاروق 35 لاکھ روپیہ تو میاں نوازشریف کاایک دن کا خرچہ ہے غور فرمائیے ٹیکس کی مد میں سالانہ 5 ہزار روپیہ صرف ۔ لگتا ہے کرپشن اور رشوت کا کارخانہ بھی ٹیکس فری زون میں لگا رکھا ہے ۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے ڈاکو اور چور اپنی واردات پر نہیں بلکہ کسی معمولی نوعیت کے قضیے میں پھنس کر گرفتار ہو جاتے ہیں۔امریکی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکو ALCAPOON جب ٹیکس چوری میں پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ جو کام امریکی فوج اور پولیس مل کر کئی دہائیوں تک نہیں کر سکی ٹیکس ملازمین نے پکڑ کر جیل حوالے کیااور پھانسی کے تختے تک پہنچایا۔آج جب میاں صاحب کے کارندے پھر سے خشک زبان خشک ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے فیصلے کی توجہیات میں مصروف ہیں اسلم بیگ اور اسد درانی کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے ہیں تو بات ادھوری نظر آتی ہے۔رشوت لینے والے جو ملکی تقدیرکواپنے قبضہ استبداد میں جکڑنا چاہتے تھے ان کا قلع قمع کیوں نہیں ؟اور بغیر اس کے آئین کے تقدس کی بحالی کیسے؟ اللہ اللہ مظلوم قوم کے ساتھ ظلم و ستم کی لمبی کہانی کو ایک انجام دے گا۔ وگرنہ کیسے ممکن تھا کہ 22 سال پہلے کی واردات آج گل کھلائے گی۔واردات کے 7 سال بعد91 سالہ اصغر خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں التجا اور 22 سال کے تھکا دینے والے اعصاب شکن صبر آزما مراحل کے بعد ایسا روشن دن ساری تکلیفوں کا مداوا کر دیتا ہے۔قومی رہنماؤں کے گمان میں بھی نہ ہو گا ان کا تیار شدہ مال ان کے اعمال کا بوجھ بن جائے گا۔
فخرو بھائی آپ اور اصغر خان کو اللہ تعالیٰ نے طویل العمری اس قوم کے دن پھیرنے کے لیے دی ہے آپ کے پاس اب بہت مواد ہے ایسے لوگوں کی گردنوں کا سائز لیں اور قوم کو کرپشن سے نجات دلوائیں۔چیف الیکشن کمشنر صاحب تفتیشی تحقیقاتی اداروں کو بروئے کار لانا آپ پر لازم ہے۔ اللہ نے بڑے بڑے کام لینے کے لیے آپ کو اس مسند پر بٹھایا ہے۔ یہ لوگ چوں چالاکیوں کے ماہر ہیں۔” جانے نہ پائیں“
تازہ ترین