• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سی سی ٹی وی یعنی کلوز سرکٹ کیمرے دنیا کے دوسرے ممالک میں چوروں، اچکوں کو پکڑنے اور دیگر جرائم کی روک تھام میں بڑے مددگار ثابت ہورہے ہیں مگر حالیہ کچھ سالوں سے یہ کلوز سرکٹ کیمرے پاکستان کے سیاستدانوں کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں جس کا اب تک سب سے زیادہ شکار مسلم لیگ (ن) ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل انہی کی بدولت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی وزیر جیل خانہ جات کی لاہور ایئرپورٹ کے عملے سے مبینہ بدتمیزی اور اپنے واقف کار مسافر کے سامان کی تلاشی کے نہ دینے کی فوٹیج منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مذکورہ وزیر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے انہیں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ (ن) لیگ کی ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی بھی انہی کیمروں کی زد میں آچکی ہیں جس میں خاتون کو کسی اور کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، یہاں بھی وزیراعلیٰ پنجاب نے بروقت ایکشن لے کر پارٹی کو مزید بدنام ہونے سے بچالیا اور خاتون کو اسمبلی رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔ ایک سخت منتظم کے طور پر شہباز شریف اس سے پہلے اپنے ایک سینئر مشیر کے بیٹے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں کے خلاف مقدمہ درج کرکے پارٹی روایت سے ہٹ کر ایک اچھی روایت قائم کرچکے ہیں۔
ابھی یہ واقعات لوگوں کے ذہن میں تازہ ہی تھے کہ ایک اور واقعے کے باعث مسلم لیگ (ن) کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب لاہور کے علاقے ڈیفنس میں قائم ایک بیکری میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی ایک فوٹیج منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون بیکری ملازم سے اس لئے ناراض ہورہی ہیں کہ بیکری بند ہونے کے باعث مذکورہ ملازم انہیں اٹینڈ نہیں کررہا۔ کچھ گھنٹوں بعد اسی کیمرے کی ایک اور فوٹیج میں یونیفارم میں ملبوس 8 مسلح افراد کو اسی ملازم پر تشدد کرتے دکھایا گیا۔ بیکری کے مالک نے متعلقہ تھانے میں واقعے کی اطلاع دی لیکن پولیس نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ ممکن تھا کہ بیکری پر ہونے والا یہ واقعہ بھی روزانہ کے ہزاروں واقعات کی طرح دب جاتا اگر سی سی ٹی وی کیمرے کی یہ فوٹیج منظر عام پر نہ آتی اور ٹی وی چینلز کے ہاتھ نہ لگ گئی ہوتی جس سے یہ بات آشکار ہوئی کہ فوٹیج میں بیکری ملازم سے تکرار کرنے والی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب کی بیٹی اور ملازم کو زدوکوب کرنے والے ایلیٹ فورس کے اہلکار تھے جس کے بعد اس فوٹیج کو ٹی وی چینلز نے نہ صرف نمایاں طور پر نشر کیا بلکہ اس پر ٹاک شوز بھی کئے جس میں پنجاب کے حکمرانوں پر کڑی تنقید بھی کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ واقعہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی دلچسپی کا باعث بن گیا اور لوگ اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ اپنے آپ کو عوام کا خادم اعلیٰ کہنے والا اس واقعے پر کیا ایکشن لیتا ہے اور اس امتحان میں کس طرح پورا اترتا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کو بھی سیاست چمکانے اور وزیراعلیٰ پر دباؤ ڈالنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے۔ شہباز شریف ان دنوں برطانیہ اور ترکی کے دورے پر تھے، وہ جب وطن واپس لوٹے تو انہوں نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کردیا کہ ”کوئی چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا اور ہر قیمت پر قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے“۔ انہوں نے بیکری ملازم کو زدوکوب کرنے میں ملوث ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا اور پولیس کو ہدایت کی کہ اس کیس میں ان کے داماد علی عمران کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس کے بعد ان کے داماد علی عمران ڈیفنس تھانے گئے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد علی عمران نے پولیس کو اپنی گرفتاری پیش کی اور رات حوالات میں گزاری۔ اگلے روز علی عمران کو عدالت میں پیش کیا گیا اور مجسٹریٹ نے انہیں14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ علی عمران کے ساتھ بلاامتیاز مجرموں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں ہتھکڑی لگاکر عدالت میں پیش کیا گیا۔ بعد میں50 ہزار روپے کے مچلکہ پر علی عمران کی ضمانت عمل میں آئی۔ ٹی وی چینلز پر یہ مناظر دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اس سے قبل ملک میں اس طرح کی روایتیں نہیں ملتیں۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کے داماد کو گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہوں اور ان کے خلاف کارروائی کا حکم خود وزیراعلیٰ نے دیا ہو۔ میرے جاننے والے ایک ریٹائرڈ جج کا اس واقعے پر تبصرہ ہے کہ یہ اتنا سنگین واقعہ نہ تھا کہ علی عمران کو حوالات میں بند کیا جاتا لیکن شہباز شریف نے شاید یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ مخالفین کے منہ بند کئے جا سکیں اور ایک اچھی روایت قائم کی جاسکے تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ قانون غریبوں کیلئے ہے امیروں کیلئے نہیں۔ ہم جہاں ایک طرف حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہاں ان کے اچھے کردار کو سراہنا بھی چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے داماد کو ہتھکڑی لگواکر اور قانونی تقاضے پورے کرکے ایک اچھی روایت قائم کی ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ قانون غریب امیر، کمزور طاقتور سب کیلئے ایک ہے جس پر دوسرے حکمرانوں کو بھی عملدرآمد کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مخالفین کا کسی کی بیٹی کو پھولن دیوی سے تشبیہ دینا اور اسے شامل تفتیش کرنے پر دباؤ بڑھانا کچھ مناسب رویہ نہیں۔جو لوگ بیٹیوں والے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیٹیوں کو تکلیف میں دیکھنا ایک باپ کیلئے کس قدر مشکل اور ناقابل برداشت ہوتا ہے اور وہ باپ یقینا لائق تعظیم ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اس کی بیٹی کے سہاگ اور اس کے بیٹے جیسے داماد کو ہتھکڑیاں لگ جائیں مگر وہ ہر قیمت پر قانون کی بالادستی قائم رکھے۔ یقینا اس فیصلے کے بعد ایک باپ کا اپنی بیٹی کا سامنا کرنا مشکل ضرور ہوگیا ہوگا اور اس سے زیادہ مشکل اپنی بیٹی کو یہ سمجھانا ہوگیا ہوگا کہ یہ فیصلہ ایک باپ کا نہیں بلکہ عوام کے خادم اعلیٰ کا ہے۔ آج شہباز شریف نے اپنے داماد کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ”خادم اعلیٰ“کے خطاب کی لاج رکھ لی ہے۔ میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی اسی طرح کے انصاف کی امید رکھتا ہوں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قانون و انصاف کی حکمرانی یقینی نہ بنانے والے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ کاش یہ بات ملک کے دوسرے حکمرانوں کو بھی سمجھ آئے۔
تازہ ترین