• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین و حضرات!مجھے کہا گیا ہے کہ ادب و معاشرے پر میڈیا کے اثرات کا جائزہ لوں لیکن میں چونکہ کسی قدر بے ادب واقع ہوا ہوں اس لئے ادب کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے صرف میڈیا کے معاشرے پر اثرات کا ہی جائزہ لوں گا۔واضح رہے کہ یہ جائزہ بالکل ویسا ہوگا جیسا ہمارے حکمران ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر سیلاب زدہ علاقوں کاطائرانہ انداز میں لیتے ہیں ۔جب سے ہماراالیکٹرونک میڈیا کمسنی سے لڑکپن کے دور میں داخل ہوا ہے اس کے مزاج میں ویسی ہی تبدیلیاں آ رہی ہیں جیسی ایک جوان ہوتے ہوئے لڑکے میں آتی ہیں۔ ہمارے الیکٹرونک میڈیا کا حال بھی مختلف نہیں۔ اس کی آواز سب پر بھاری ہو گئی ہے ، قد بڑھ گیا ہے ،چہرے پر چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے کیل مہاسے بھی نظر آتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر عجیب طرح کی وحشت بھی طاری رہتی ہے ۔تاہم ان باتوں کے باوجود لڑکپن کا یہ دور بے خوف ہوتا ہے اور ہمارا میڈیا اسی بے خوفی کے دور سے گزر رہا ہے۔
پاکستان میں میڈیا کے کردار کے بارے میں جب بھی بحث ہوتی ہے ،ایک سوال فوراً میرے دماغ میں کلبلاتا ہے کہ آخر کسی اینکر یا کالم نگار کو درست اور حقائق پر مبنی بات کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟میرے نزدیک اس کا فائدہ اسی صورت میں ہے اگر اس کی ریٹنگ بڑھے جس کے نتیجے میں اس کی نوکری پکی رہے اور سیلری پیکیج ترقی کرتا رہے اور یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے جب اس کے پروگرام کو اشتہارات ملیں اور اشتہارات کا تعین وہ مڈل کلاس کرتی ہے جس کا واحد شغل رات کو ٹی وی دیکھنا ہوتا ہے ۔یہ مڈل کلاس دراصل کنزیومر کلاس ہے جس نے گھی، تیل، فریج، اے سی یا ٹی وی خریدناہوتا ہے۔ عموماً یہ مڈل کلاسRightestہوتی ہے جسے مقبول نقطئہ نظر ہی بھاتا ہے چنانچہ میڈیا وہی دکھاتا ہے جو وہ دیکھنا پسند کرتے ہیں چاہے حقائق اسکے برعکس ہی کیوں نہ ہوں اور یہ بے حد خطرناک بات ہے۔میڈیا کی ریٹنگز اور populist approach کے تال میل سے ہمارے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ خاصے دور رس ہیں ۔چونکہ ہمارے میڈیا کو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا کنزیومر ازم ڈرائیو کر رہا ہے اسلئے اس طبقے کے مفادات کو اجاگر کرنا میڈیا کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس مڈل کلاس کے سیاسی مزاج اور خواہشات کے مطابق پروگرام پیش کرنا ہی مقبولیت کی کنجی قرار پاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کلاس کی خواہشات درست نہیں ہوتیں ،اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارا میڈیا کثرت سے صرف ان خیالات کوبڑھاوا دیتا ہے جو اس کلاس کے مزاج کے مطابق ہوتی ہیں تاکہ اس کے بدلے وہ کلاس ان کا چینل دیکھے، اخبار پڑھے اور ساتھ میں وہ اشتہار بھی دیکھ لے جن کی ڈور کنزیومر ازم کی بدولت مڈل کلاس کے ہاتھ میں ہے !یہاں ایک سوال اشرافیہ سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس اپر کلاس کا مسئلہ نہ ٹی وی ہے اور نہ وہ اشتہارات جن میں کسی ٹی وی یا فریج کو ہزار دو ہزار سستا کرکے بیچا جاتا ہے ۔اس اپر کلاس کی موج مستی ٹی وی ٹاک شو کی مرہون منت نہیں اور نہ ہی انہیں اس بات کی پرواہ ہے کہ کون سی موٹر سائیکل ایک لٹر میں کتنے کلومیٹر چلتی ہے ۔انہیں اپنے مفادات کا تحفظ دینے اور اس سے متعلق قانون سازی کروانے کیلئے لابنگ کرنی پڑتی ہے جس کیلئے وہ نہایت اطمینان سے پیسے خرچ سکتے ہیں۔لہٰذا اس مڈل اور اپر کلاس کے بعد صرف وہ غریب اور محروم طبقہ بچتا ہے جو نہ لابنگ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس نے ٹی وی چینل کی ریٹنگ یا اخبار کی سرکولیشن کو متاثر کرنا ہے۔اس کے بنیادی مسائل چاہے جتنے بھی اہم ہوں ،وہ اہمیت یا کوریج نہیں پا سکتے ۔
ڈینگی کو لے لیں۔جتنے لوگ ڈینگی سے مرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اموات ہیپا ٹائٹس سے ہوتی ہیں لیکن ڈینگی سے مڈل کلاس متاثر ہوتی ہے جبکہ ہیپا ٹائٹس ان غریبوں کو ہوتا ہے جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ چونکہ صاف پانی کی فراہمی کا سیاسی ڈھنڈورا اس جوش و خروش سے نہیں پیٹا جا سکتا جیسے کسی فلائی اوور یا انڈر پاس کا پیٹا جا سکتا ہے اس لئے یہ مسئلہ حل ہی نہیں ہو پاتا۔ یہی حال مختلف قسم کی سبسڈیز کا ہے ۔ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق بجلی پر سبسڈی کا فائدہ غریب کی نسبت امیر کو ہو رہا ہے لیکن کون پرواہ کرتا ہے ۔گندم کی امدادی قیمت دیکھ لیں۔حکومت نے جب یہ قیمت بڑھائی تو فائدہ اس کاشتکار کو ہوا جسکے پاس ضرورت سے زائد گندم تھی،اس نے منڈی میں بہتر داموں بیچ کر منافع کما لیا جبکہ غریب کسان کو اپنی ضرورت کیلئے مہنگی گندم خریدنی پڑی۔ جب رمضان آتا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اربوں روپوں کے پیکیج دینے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی ہے۔ اربوں روپے کی یہ سبسڈی ان لوگوں کو بھی فائدہ پہنچا جاتی ہے جنہیں نہ اس کی ضرورت ہے نہ انہوں نے کبھی اس کا مطالبہ کیا۔اسی طرح حکومتیں ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے میں بھی بڑی شیر ہوتی ہیں کیونکہ اس کی افتتاحی تختی بہت خوبصورت لگتی ہے اور اربن مڈل کلاس کی ضرورت کی وجہ سے میڈیا میں بھی پذیرائی ملتی ہے ۔حقیقت بہت تلخ ہے۔ پاکستان میں لا تعداد بچے دل میں پیدائشی طور پر سوراخ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور اس کا کوئی ہسپتال بھی نہیں ،کیوں ؟ اس لئے کہ یہ بیماری زیادہ تر ان بچوں کو ہوتی ہے جن کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا تعلق غریب ترین طبقے سے ہوتا ہے۔ایسے ہسپتال کے لئے صرف 2ارب چاہئیں لیکن اربن مڈل کلاس میڈیا کہاں سنتا ہے ؟اسی طرح بھارت سے جنگی جنون ہو، امریکہ مخالف جذبات ہوں ،سازشی تھیوریاں ہوں ،”ہم بہت ٹیلنٹڈ ہیں “ کاراگ ہو یا انقلاب کا نعرہ ہو…یہ سب باتیں مڈل کلاس کی خواہشات کی عکاس ہیں ، اسی لئے میڈیا میں بکتی ہیں ۔اس ساری بحث میں ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے لیڈران کو ٹی وی سکرین پر ٹکّر دیکھ کر افسر کو معطل کر دینا چاہئے یا سرے سے اپنے کان ہی لپیٹ لینے چاہئیں ؟میرے خیال میں یہ دو انتہائیں ہیں،جن میں اعتدال کی ضرورت ہے ۔اور چلتے چلتے ایک پیشین گوئی کہ آئندہ الیکشن نتائج حیران کن ہوں گے کیونکہ میڈیا نے صرف ان حالات کی تصویر کشی کی ہے جو اس کلاس کو متاثر کرتے ہیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور جب نتائج تصویر کے مطابق نہیں ہوں گے تو پھر دھاندلی اور سازش کا نعرہ لگے گا ۔چونکہ یہ دونوں نعرے بہت پاپولر ہیں اس لئے مڈل کلاس میں بہت بکیں گے۔
تازہ ترین