• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کا سوروزہ ایجنڈہ پیش کرنے کے بعد ہمیں جو سب سے پہلی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار روزگارکے مواقع پیدا کرنے، ان کی اہمیت اور حصول کے بارے میں بحث کی شروعات ہوئی ہے۔ لہٰذا ہم ملک میں ملازمتیں پیدا کرنے کے معاملے کو اقتصادی گفتگو کا مرکزی موضوع بنانے کی کوشش میں کامیاب رہےہیں۔ میں اس مضمون میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا کہ ایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف ذہن میں کہاں سے آیاہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور ہم نے اس ہدف کو پورا کرنے کی کیا منصوبہ بندی کی ہے۔
سب سے پہلے ہم اس بات سے آغاز کرتے ہیں کہ پانچ سالوں میں ایک کروڑ ملازمتیں ہمارا ہدف کیوں ہے۔ ماہرین کے فراہم کئے گئے تخمینے کے مطابق ہر سال تقریبا بیس لاکھ اضافی نوجوان روزگار کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس سےاندازہ ہوتاہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑنوجوان ملازمتوں کے خواہاں ہونگےاب جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اگلے پانچ سال میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مطلوب ہوگاتو آئیے ان ملازمتوں کے حصول میں ریاست کے کردار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق ریاست تمام شہریوں کو ملک میں دستیاب وسائل کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ چناچہ یہ ہماری آئینی ذمہ داری ہے کہ ہم اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں ۔ ہمارے اس ہدف پر تنقید کرنے والے بالفاظ دیگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بے روزگاری میں اضافے کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ کون سا مہذب ملک بے روزگاری بڑھانے کے منصوبے بناتا ہے؟
آئینی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نوجوان آبادی ملک کا بڑا اثاثہ اور اقتصادی اہمیت کی حامل بن سکتی ہے اگر اسے درست ہنر ، تعلیم اور میرٹ پر پیداواری مواقع فراہم کئےجائیں۔ بصورت دیگر اگر ہم یہ اقدام نہیں کرتے تو یہ نوجوان بدترین اقتصادی اور سماجی مسائل کےنتیجےمیں ہمارے لئےسب سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ بجائے اس پر کہ ہمیں ایک کروڑ روزگار کے مواقع کا ہدف رکھنا چاہئے یا نہیں بحث اس بات پر ہونی چاہئے کہ یہ ہدف کیسے بہترین انداز سے حاصل کیا جائے ۔پرائیویٹ سیکٹر کسی بھی ملک میں ترقی اور کام کی پیداوار میں ایک بنیادی انجن کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت اسے کاروبار کو بڑھانے اور سرمایہ کاری میں فروغ کیلئے سہولتیں فراہم کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نجی شعبے میں روزگار پیدا کرتی ہے۔لیکن سر دست پرائیویٹ سیکٹر پرٹیکسوں اور پابندیوں کا بوجھ ہے جبکہ اسے معاشی فیصلہ سازی میں برابری کی سطح پر شمارنہیں کیا جا رہا ۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ حکومت کا کام کاروبار اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پیدا کرکے نئی سرمایہ کاری کروانا ہے۔
اب آتے ہیں اس پر کہ یہ روزگارکے مواقع پیدا کیسے ہونگے۔پرائیویٹ سیکٹر کو سہولت دینے اورمعاشی فیصلہ سازی میںاسےشامل کرنے کی ہم وضاحت کرچکے ہیں۔دوسرا اہم جزو ان شعبوں کو ترجیح دینا ہے جو کام میں تیزی اور پاکستانی معیشت سے نسبتاً زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کے شعبوں میں جہاں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا سب سے زیادہ امکان مینوفیکچررز (SMEs)، تعمیر، سیاحت اور سماجی خدمات (تعلیم، صحت) کے شعبوں میں ہے ۔
یہ تحقیق انٹر نیشنل لیبر آرگنائیزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ ورلڈ ایمپلائیمنٹ اینڈ سوشل آؤٹ لُک 2015پر مبنی ہے۔
تحریک انصاف کی پالیسیوں کی سفارشات پاکستان بزنس کونسل (پی بی بی) 2018 کی رپورٹ میڈ ان پاکستان کی سفارشات سے ہم آہنگ ہیں۔
پالیسی کے کچھ اہم نکات جوسرمایہ کاری کو فروغ دینے اورمطلوبہ ملازمتوں کی تخلیق کرنے میں مددگار ہیں وہ یہ ہیں:
1۔توانائی جیسے شعبوں میں ٹیکس کا تناسب کم کر کے بنیادی لاگت میں کمی۔
2۔اہم شعبوں میں نئی سرمایہ کاری کیلئے ٹیکسوں میں حوصلہ افزائی۔
3۔ ترجیحی شعبوں کے مالی معاملات کے مسائل میں رسائی۔
4۔ مالی خسارے کو چھپانے کیلئے رقم کی واپسی میں مالی مراعات کی پریکٹس کا خاتمہ۔
5۔ یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے ہنر کی تربیت اور تکنیکی تعلیم ۔
6۔ نجی شعبے کی وزیر اعظم کی سربراہی میں کاروباری کونسل میں نمائندگی۔
7۔ ٹورزم اور سرمایہ کاری میں پاکستان کے مثبت تاثر سے فروغ اور نجی مہم جوئی میں اضافہ ۔
8۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تجربے اور علم سے استفادہ کر کے سرمایہ کاری میں سہولتوں کے ذریعے معیشت میں بہتری۔
9۔ سماجی شعبے کی ترجیحی بنیادوں پر صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری۔
10۔ ماحول دوست معیشت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف ماحول کی بہتری بلکہ ملازمت اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا۔
ان اقدامات کیلئے اور ترجیحی شعبوں کیلئے تفصیلی طور پر پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل کی پالیسی پہلے ہی جاری کی گئی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں دوسرے شعبوں کے حوالے سے بھی پالیسی لائی جائے گی۔بحیثیت ایک قوم آنے والی نسل کا ہم پر حق ہے کہ ہم اسے ایک باعزت زندگی دیں اور پاکستان کی خوشحالی میںاس کا اہم کردار بنائیں ۔ آئیے ہم اپنی آئینی ذمہ داریوں پر صرف زبانی کلامی کے بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جب پاکستانی قوم کسی مقصد کے حصول کا ارادہ کر لے اور متحد ہو جائے تو اس کے سامنے کوئی چیز مشکل اور نا ممکن نہیں رہتی۔ جیسے ہم نے عالمی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن کر دکھایا۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول اور خوشحال پاکستان کیلئے ہماری رہنمائی کریں۔ آخر میں عرض ہےکہ یہ قوم بائیس کروڑ عوام پر مشمل ہے نہ کہ صرف چند ایک گھرانوں پر ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین