• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ عام انتخابات کیلئے ووٹرز کی جاری کردہ فہرستوں کے مطابق 18 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 64 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اس عمر کے لوگوں کو نوجوان ہی کہا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کے 10 کروڑ سے زیادہ ووٹرز میں سے نوجوان ووٹرز کا تناسب 43.82 فیصد بنتا ہے ۔ یہ تناسب فیصلہ کن ہے ۔ اگرچہ ماضی میں ہونیوالے تمام انتخابات میں بھی نوجوان ووٹرز کا کم و بیش تناسب اتنا ہی ہو گا لیکن موجودہ عہد کے نوجوانوں کے رحجانات ماضی کے مقابلے میں بوجوہ مختلف ہیں اور ان مختلف رحجانات کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں ان کا کردار بہت زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔ اگر نوجوان ووٹ دینے کیلئے نکل پڑے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ توقعات اور اندازوں سے یکسر مختلف ہو سکتا ہے ۔
جن سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو نظر انداز کیا یا جن کی نوجوانوں میں اپیل نہیں ہے ، وہ نوجوانوں کی حمایت سے سیاسی طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی ۔ موجودہ دور کے رحجانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آج کا نوجوان بہت زیادہ باشعور ، زیادہ تعلیم یافتہ اور خطہ اور عالمی حالات سے باخبرہے لیکن پاکستان کی ماضی کی سیاسی تحریکوں اور سیاسی رحجانات سے قطعی طور پر لاتعلق ہے اور یہ بات پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ اس سے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عام انتخابات میں نوجوانوں کا ووٹ فیصلہ کن عامل بن گیا تو کیا پرانی سیاسی صف بندیاں غیر متعلق ہو جائیں گی اور 1960 ء سے شروع ہونیوالی سیاسی جدوجہد بے نتیجہ ختم ہو جائیگی ؟ ووٹر لسٹ میں 18 سے 25 سال کے ایک کروڑ 74لاکھ سے زیادہ ایسے نوجوان ووٹرز ہیں ، جن کی عمریں 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت 7 سے 14 سال کے درمیان ہوں گی ۔ 27 دسمبر 2007ء کا سانحہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا عظیم سانحہ ہے ، جس کے بعد جمہوری جدوجہد ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوئی ، جس میں نئی نسل شامل ہی نہیں ہوئی یا اسے شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ یہ ایک کروڑ 74 لاکھ سے زائد ووٹرز اگرچہ ماضی کے اس عمر کے نوجوانوں کے مقابلے میں اپنے حقوق کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں اور اپنے عہد کے بارے میں بہت زیادہ باخبر ہیں لیکن ماضی کی سیاسی جدوجہد کا تسلسل نہیںہیں ۔
ووٹر لسٹ میں 26 سے 35 سال کے نوجوان ووٹرز کی تعداد تقریباً 2 کروڑ 90 لاکھ ہے ۔ انکی پیدائش 1983 سے 1992 ء کے درمیان ہوئی ہے ۔ 1983 ء میں تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) چل رہی تھی ، جو وادی سندھ کی تاریخ کی شاید سب سے بڑی اور اہم سیاسی تحریک تھی ، جس نے اس خطے کو اعلیٰ سیاسی اقدار سے مالا مال کیا ، جن کی بنیاد عظیم مقاصد کیلئے قربانی کا جذبہ تھا ۔ مذکورہ نسل اس تحریک میں نہ تو شامل تھی اور نہ ہی اپنے سن شعور میں اس تحریک کے اثرات کو محسوس کر سکتی تھی ۔ اس طرح 18 سے 35 سال تک کے 4 کروڑ 64لاکھ سے زائد نوجوان ووٹرز نہ صرف ماضی کے سیاسی رحجانات اور معیارات ( Norms ) سے بے گانہ ہیں بلکہ وہ ایسے دور میں پیدا ہوئے ، جب سرد جنگ کا عہد ختم ہو چکا تھا ۔ دنیا پر امریکی نیو ورلڈ آرڈر نافذ تھا یا نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ ترقی پسند ، لبرل اور روشن خیال سیاسی قوتیں اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوگئیں ۔ سرد جنگ کے آخری زمانے میں اشتراکیت کے خلاف ’’ شدت پسند مسلمان ‘‘ دنیا میں ایک نیا سیاسی عامل بن کر ابھرے اور 2001ء میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد طالبان ، القاعدہ سے لیکر داعش تک بنیاد پرست تنظیموں کو غیر ریاستی عناصر کے طور پر عالمی سیاست کا فریق بنایا گیا ۔ ترقی پسندانہ سوچ اور روشن خیالی کے پنپنے کا ماحول نہ رہا ۔ پاکستان کے 4کروڑ 64لاکھ سے زیادہ نوجوان ووٹرز اسی ماحول میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں میں نہ صرف شدت پسندرحجانات پیدا ہوئے بلکہ کچھ نوجوانوں میں انقلابی اور عسکریت پسندانہ سوچ بھی پیدا ہوئی ۔ یہ نوجوان شدت اور عسکریت پسند جماعتوں اور تنظیموں کے قریب ہوئے ۔ اسی دور میں شدت پسند رحجانات کے ساتھ ساتھ لسانی ، نسلی ، علاقائی اور قوم پرستانہ رحجانات میں بھی اضافہ ہوا ۔ بہت بڑی تعداد میں نوجوان اس طرح کے رحجانات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قریب یا ان سے وابستہ ہوئے ۔ 4 کروڑ 64 لاکھ نوجوان ووٹرز میں سے تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ ووٹرز پنجاب میں ، 82 لاکھ 40 ہزار ووٹرز سندھ میں ، 57 لاکھ 77 ہزار خیبرپختونخوا میں ، 16 لاکھ 58 ہزار بلوچستان میں ، 10 لاکھ 24 ہزار فاٹا میں اور 2 لاکھ 73 ہزار ووٹرز اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ پنجاب کے دیہی علاقوں خصوصاً جنوبی پنجاب ، سندھ کے سرحدی علاقوں ، بلوچستان کے پشتو بولنے والے علاقوں اور کچھ بلوچ علاقوں کے ساتھ خیبر پختونخوا بشمول فاٹا کے زیادہ تر علاقوں کے نوجوان شدت پسند اور عسکریت پسندانہ رحجانات رکھنے والے عناصر کے زیادہ قریب ہوئے ۔ سندھ کے بعض شہری اور زیادہ تر دیہی علاقوں بلوچستان کے بلوچ علاقوں اور جنوبی پنجاب کے شہری و دیہی علاقوں کے بہت نوجوان قوم پرستانہ رحجانات کے حامل ہوئے ۔ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے شہری علاقوں میں بھی اس ہی قسم کے رحجانات نوجوانوں میں مقبول ہوئے لیکن درمیانہ اور اعلیٰ طبقے کے نوجوان ایسے رحجانات سے دور رہے اور ماضی کی وفاق پرست اور لبرل سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں اپیل نہیں کی ۔ یہ ان سیاسی جماعتوں کی گزشتہ تین عشروں کی سیاسی حکمت عملی کی سب سے بڑی ناکامی ہے ۔ بدلتے ہوئے حالات میں وہ نوجوانوں کو ایسا سیاسی بیانیہ نہیں دے سکی ہیں ، جس کے ذریعہ نوجوان پاکستان کی سیاسی جدوجہد کا تسلسل بنتے ۔
اس عرصے میں پاکستان کے آج کے نوجوان ووٹرز کو شدت پسند، عسکریت پسند ، قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کیساتھ ساتھ کسی حد تک پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی متاثر کیا ۔ آج کے نوجوانوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے ۔ وہ اس آن لائن پلیٹ فارم کو استعمال کرکے دیگر ووٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ اگر وہ ووٹ دینے آجائیں تو نہ صرف بہت سے حلقوں میں انتخابی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے بلکہ ملک کا اجتماعی سیاسی منظر نامہ بھی توقع اور اندازوں کے برعکس ہو سکتا ہے ۔ آن لائن پلیٹ فارم کو سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی استعمال کر رہی ہیں لیکن انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آج کی نوجوان نسل کے بارے میں وہ الفاظ زیادہ صادق آتے ہیں ، جو ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھڑی سے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے طویل خط میں تحریر کئے تھے کہ ’’ آج کی نوجوان نسل زیادہ بے باک ہے اور وہ نہ صرف اپنے حقوق سے آگاہ ہے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اس سے مکمل ایمانداری اور سچائی کیساتھ بات کی جائے ۔ ‘‘ نوجوانوں کا آئندہ عام انتخابات میں بہت اہم کردار ہے۔ ماضی کا سیاسی تسلسل برقرار رہتا نظر نہیں آ رہا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین