تمام تر خدشات ، تحفظات، رکاوٹوں ، سازشوں، چیلنجز اور نشیب فراز سے گزر کر جمہوریت کی ناؤ ایک بار پھر پار لگنے جا رہی ہے ، اکتیس مئی کی شب جب گھڑی کی تینوں سوئیاں بارہ کے ہندسے پر اکھٹی ہو جائیں گی تو جمہوریت کی علامت قومی اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر کے از خود تحلیل ہو جائے گی۔ یہی وہ لمحات ہیں جنہیں پانےکےلئےقوم نے ساڑھے تین دہائیاں جدوجہد کی ہے۔ اسی منزل تک پہنچنے کی جستجو کرنے والے چوبیس وزرائے اعظم کو کبھی گولی مار دی گئی تو کبھی اس سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا،کبھی اختلاف رائے پر اسے گھر کا راستہ دکھا دیا گیا تو کبھی بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہوس نے اسکا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کبھی اسے پھانسی کے پھندے کی نذر کر دیا گیا تو کبھی بد عنوانی کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر گھر بھیج دیا گیا۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی مسلسل دوسری قانون ساز اسمبلی ہے جو اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ کا تسلسل یہاں بھی نہیں ٹوٹا اور مدت پوری کرنے سے پہلے اسی اسمبلی کو اپنے نئے قائد کا انتخاب کرنا پڑا۔ یوں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی اپنے پانچ سال تو پورے کر لئے تاہم اس کے وزرائے اعظم کو عوامی مینڈیٹ کے مطابق اپنی مدت پوری کرنے کا اعزاز پھر بھی حاصل نہ ہو سکا۔ تاریخ کے اسی جبر کی داستان آج کل سابق وزیر اعظم نواز شریف بیان کرتے پھرتے نظر آتے ہیں اور وہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کئے بغیر اس تاریخ کے دھارے کو موڑنے پر بضد ہیں جس کے چند باب ان سے بھی منسوب ہیں۔
ستر سالہ پارلیمانی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پرویز مشرف کی آمریت کی چھتری کے ساتھ 2002 ءمیں قائم ہونیو الی قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی لیکن ایک منتخب جمہوری قومی اسمبلی کو آئینی مدت پوری کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ہی پہلی بار نصیب ہوا تھا۔ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو گورنر جنرل غلام محمد نے تحلیل کر کے اس نحوست کا آغاز کیا جس نے 12اکتوبر 1999ءتک پاکستان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ملک کا پہلا آئین دینے والی دوسری قومی اسمبلی اسکندر مرزا کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پاکستان کو دوسرا آئین دینے والی تیسری قانون ساز اسمبلی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی جنرل یحی خان کے مذموم ارادوں کی نذر ہو گئی۔ پاکستان کا مجموعی طور پر تیسرا لیکن پہلا متفقہ آئین دینے والی تاریخ ساز چوتھی اسمبلی بھی قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کی وجہ سے تحلیل کر دی گئی ، اسی اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ آئین میں پاکستان میں قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کا تعین کیا گیا تھا۔ پانچویں قانون ساز اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور اسکے نتیجے میں لگنے والے مارشل لاء کا شکار ہو گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے چھٹی منتخب قانون ساز اسمبلی کے بجائے مجلس شوری بنا کر اپنے اقتدار کو دوام دیا۔ بعد میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کرا کے ملک کی ساتویں اسمبلی قائم کر دی گئی لیکن اسے بھی جنرل ضیاء نے مدت کی تکمیل سے پہلے ہی اٹھاون ٹو بی کے استعمال کے ذریعے تحلیل کر دیا۔ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور شہید بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیرا عظم کے عہدے پہ فائز ہوئیں لیکن اس آٹھویں قانون ساز اسمبلی کو بھی صدر غلام اسحق خان نے شہید بی بی کے ساتھ اپنے اختلافات کے باعث قبل از وقت قربان کر دیا۔ ایک بار پھر ملک میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا اور اس بار عوام نے نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کیلئے منتخب کیا لیکن ڈھائی سال بعد ہی صدر غلام اسحق خان نے ایک بار پھر اٹھاون ٹو بی کی تلوار سے نویں منتخب قومی اسمبلی کا سر قلم کر دیا۔ اسی سال پھر عام انتخابات منعقد کرائے گئے اور عوام نے شہید بے نظیر بھٹو کو دوسری بار قائد ایوان اور وزیرا عظم منتخب کر لیا تاہم تاریخ کا تسلسل جاری رہا اور اس بار فاروق خان لغاری نے بطور صدر تین سال ایک ماہ بعد ملک کی دسویں قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ ملک میں دوبارہ عام انتخابات کرانا پڑے اور عوام نے ووٹ کی پرچی سے دوسری بار نواز شریف کو بھی وزارت عظمی کے منصب تک پہنچا دیا تاہم دوسال آٹھ ماہ بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے مبینہ طیارہ ہائی جیکنگ کے الزام کے تحت نواز شریف کی حکومت کو ختم کر دیا۔ اس ملکی پارلیمانی تاریخ کے تناظر میں 31مئی کا دن یقیناً جمہوریت کی فتح کا دن ہے جس پر جمہوریت پسند جتنا بھی فخر کریں وہ کم ہے۔ جمہوریت پسندوں کو پانچ سال کی یہ مسافت طے کرنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے وہ ایک الگ داستان ہے جس کے مرکزی کردارسابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتساب عدالت کی پیشیاں بھگتتے دیکھ کر اس کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اقتدار کی کھینچا تانی کے اس پانچ سالہ دور میں بھی سیاست دانوں نے وہ سب ممکن کر دکھایا جو صرف جمہوریت کا خاصہ ہے۔ اپنے آخری ایام میں بھی قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کی منظوری کے ذریعے قیام پاکستان کے بعد بھی علاقہ غیر کہلانے والے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ سرزمین بے آئین کو آئین کا تحفہ دینے والے سیاست دانوں کے ساتھ ہمارے محترم صحافی دوست سلیم صافی نے بھی جو کردار ادا کیا اس پر پوری پختون برادری ان کی مشکور ہے۔ یہ سہرا بھی جمہوریت اور اسی قومی اسمبلی کے سر ہے کہ اس نے الیکشن ایکٹ کے ذریعے تمام انتخابی قوانین کو یکجا کر کے نہ صرف جامع اصلاحات کیں بلکہ عام انتخابات کو غیر جانب دار ،آزاد اور شفاف بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کو انتظامی اور مالی طور پہ اس قدرخود مختار بنا دیا ہے کہ اسے اپنے قوانین کی منظوری کیلئے بھی کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ بھی انہی سیاست دانوں کا اعزاز ہے کہ انہوں نے 24 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نئی مردم شماری کے مطابق وفاق اور صوبوں میں نشستوں کی تقسیم کا پیچیدہ مسئلہ بھی خوش اسلوب سے حل کیا، نئی حلقہ بندیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کیں۔دہشت گردی کی عفریت کو نکیل ڈالنے کیلئے اسی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر دہشت گردی سے متعلقہ قوانین میں وسیع پیمانے میں ترامیم کیں، پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائیاں کرنے والے عناصر کو عبرت کا نشان بنانے کیلئے تحفظ پاکستان ایکٹ منظور کیا، گواہان کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کا قانون منظور کیا۔ اسی طرح دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث عناصر کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام اور توسیع کیلئے متفقہ آئینی ترامیم متعارف کرائی گئیں۔معاشرے سے انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے قومی ایکشن پلان کی منظوری کے ساتھ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کو بھی فعال بنایا۔ ملک میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی مرتب کی گئی۔ سول عسکری اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے نیشنل کمانڈ اتھارٹی تشکیل دی گئی۔پاکستان کی 14 ویں اسمبلی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اس نے عوام کو سستے انصاف کی فراہمی کیلئے تنازعات کا متبادل تصفیہ جاتی نظام متعارف کرایا جبکہ سادہ لوح افراد کوفضول مقدمہ بازی میں الجھانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے مقدمہ بازی لاگت ایکٹ متعارف کرایا۔ ملک میں پہلی بار الیکٹرانک جرائم کے تدارک کیلئے قانون سازی بھی اسی قومی اسمبلی نے کی۔ پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے والی جمہوریت کی علامت قومی اسمبلی کی کارکردگی کا مکمل احاطہ ممکن نہیں لیکن اتنا کہنا کافی ہے کہ جس جمہوریت نے ملک کو متفقہ آئین دیا، نوے ہزار جنگی قیدیوں کو چھڑایا، ہزاروں مربع میل کا رقبہ وا گزار کرایا،ملک کو ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کیا، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین سے آمریت کی نشانیوں کو حذف کیا ،پختونوں کو خیبر پختونخوا کا نام دے کر شناخت دی اب اسی جمہوریت نے فاٹا کے قبائلی عوام کو عملی طور پر پاکستان کے وجود کا حصہ بنا نے کا تحفہ بھی دیا ہے۔ جمہوریت کی اس فتح پر آئیں یک زبان ہو کر نعرہ لگائیں ، سیاست دان زندہ باد جمہوریت پائندہ باد
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)