• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں پہلے 100دن کے پلان پر جارحانہ تنقید کرنے والی حکمراں جماعت نے اپنے پانچ سالہ اقتدار کے آخری دنوں میں سرکاری ملازمین اور آفیسروں پر مالی وسائل خرچ کرنے کی وہ نئی روایت قائم کردی ہے جس کی ماضی میں اتنی سی مثال ملتی ہے کہ فلیٹ کی منظوری کے بعد وزارت خزانہ کے ملازمین اور آفیسروں کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا وظیفہ ملا کرتا تھا۔ اب کی بار تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یقیناً سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مشاورت سے وفاقی ملازمین کو3ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے جس پر وزارت خزانہ کے ماہرین کے اندازے کے مطابق 160ارب روپے سے زائد اضافی اخراجات ہوں گے۔ اس کی دیکھا دیکھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے صوبے کے تمام آفیسروں کو تعریفی اسناد اور پتہ نہیں کیا کچھ دے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن آفیسروں کا وہ نام سننا نہیں چاہتے تھے یا جن کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے، وہ پچھلےدنوں میاں شہباز شریف کے مہمان تھے اور وزیر اعلیٰ ان کے اپنے ماضی کے جارحانہ رویے پر معذرت بھی کررہے تھے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں یہ سب ویسے ہوا، جیسے شاہی خاندان کا اقتدار ختم ہورہا ہو تو وہ واپسی کاراستہ لینے کے لئے قومی خزانے کی پروا کئے بغیر نوازشات کرتے تھے لیکن اب تو شاہی خاندان والے ادوار دنیا میں چند ممالک کے پاس رہ گئے ، پاکستان میں بھی سیاسی بادشاہت کا دور 31مئی کو آئینی تقاضے کے تحت پورا ہورہا ہے۔ اس دوران شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کے لئے پچھلے ایک سال کا عرصہ بڑا بھاری گزرا اور سیاسی طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلسل لیگ (ن) دونوں کو کافی نقصان پہنچا۔ جہاں تک حکومت کے اس اقدام کا تعلق ہے۔ وزیر اعظم کو ملک کے مالی حالات دیکھتے ہوئے ذرا احتیاط سے یہ اعلانات کرنے چاہئیں تھے۔ اس سے قبل ایوان صدر میں صدر محترم کی تنخواہ میں بھی تاریخ ساز اضافہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اتنا تو ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کے سالانہ ذاتی اخراجات نہیں ہوتے، جتنے انہیں ماہانہ بنیادوں پر دے دئیے گئے۔ حقیقت میں تو اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ اقدام قومی خدمت یا کسی اصول کے زمرے میں نہیںآتا۔ اسلئے کہ ملک میں پہلے ہی قومی آمدنی اور وسائل کی قلت کا بحران ہے اور ملک میں بچت کی شرح بھی عملاً منفی سطح پر ہے۔ اسکے باوجود سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے سے احتیاط کی جاتی تو بہتر تھا اور اگر کرنا ہی مقصود تھی تو اس کو آدھے ماہ کی تنخواہ تک محدود رکھا جاسکتا ہے۔ اس اقدام سے ایسے نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) سیاسی گورننس کا آرٹ بھی جانتی ہے جس سے اکنامک گورننس اور مینجمنٹ کا تو بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں عوام کی اکثریت میں وزیر اعظم کے اعلان کا مثبت سے زیادہ منفی ا ثر سامنے آرہا ہے اور عام آدمی اس حوالے سے وہ سب کچھ کہہ رہا ہے جس کو صحافت کے ضابطہ کے تحت لکھنا غیر اخلاقی رویے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس صورتحال میں ایسے حکومتی رویوں کی وجہ سے اب سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد بھی اپنے بیوی بچوں کے دبائومیں آکر پی ٹی آئی کی طرف مائل ہورہی ہے یہی وجہ کہ عمران خان کے100دن کے پلان پر سرکاری اداروں کے ملازمین کی طرف سے غیر اعلانیہ مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسکا کریڈٹ تحریک انصاف کی اپنی کاوشوں سے زیادہ مسلم لیگ(ن) کی ایسی پالیسیوں کو جاتا ہے جس سے قومی خزانے کے پریشان کن حالات میں شاہانہ اعلانات کی وجہ سے قومی مالی حالات مزید خراب ہونگے، جسکا بوجھ نگران حکومت اور پھر عام انتخابات کے بعد آنیوالی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔
جہاں تک عمران خان کے 100دن کے پیشگی اعلان کا تعلق ہے یہ روایت امریکہ میں 1933میں صدر روز ویلیٹ نے قائم کی تھی اس کے بعد امریکہ، نیوزی لینڈ میں اب بھی الیکشن سے قبل 100دن پلان دینے کی روایات موجود ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک مسلم لیگ (ن) نے جو 100دن کا پلان دیا تھا وہ آج پانچ سال گزرنے کے بعد بھی 90فیصد سے زائد عملدرآمد سے محروم ہے۔ اسلئے بہترہے کہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں کشیدگی اور بداعتمادی کے عنصر کو کم کرنے کیلئے جامع اصلاحات کا آغاز کیا جائے جس سے جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں لیکن اگر محض سیاسی تقاضوں کے تحت آفیسروں اور ملازمین پر اربوں روپے کی نوازشات کی جاتی رہیں تو پاکستان میں کبھی بھی کفایت شعاری اور بچت کا تصور کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا اور نہ ہی ہماری گورننس اور اکنامک گورننس بہتر ہوسکے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین