• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے روزے کی تیّاریاں جاری تھیں کہ بھارت کے مشہور شدت پسند دانشور رہنما اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق ممبر پارلیمنٹ جناب ترون وجے نے ایک ٹویٹ کے ذریعے صرف ان مسلمانوں کو ماہ صوم کی مبارک باد کی پیش کی جو بقول انکے تشدد کو ترک کرکے بھارتی قومی پرچم ترنگے کو پہنتے ہوں- اس بحث سے قطع نظر کہ بھارت میں قانونی طور قومی پرچم پہننا غیر قانونی ہے اور یہ کہ ہندو شدت پسند اسکے مقابلے میں اپنے زعفرانی پرچم کا زیادہ استعمال کرتے ہیں یہ پیغام مسلمانوں کی مبینہ ملک دشمنی کی طرف ایک واضح اشارہ تھا- بھارت کی آزادی کے روز اول سے ہی ہندو شدت پسند مسلمانوں کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ گردان کر ان کے خلاف نبرد آزما ہیں اور بی جے پی رہنما کا بیان اسی مسلمان مخالف اور شاطرانہ طرز عمل کی ایک کڑی تھا- انہوں نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ روزے داروں کو مخاطب کرکے لکھا: ’’قوم کی عظمت کیلئے ہماری دنیا اور آپکے رمضان میں ملاپ ہونا ضروری ہے، ورنہ‘‘- اسطرح کی عبارت سے جہاں رمضان المبارک کی تکریم کو بلواسطہ طور پر بھارت کی عظمت کی خاطر خطرہ قرار دیاگیا وہیں مسلمانوں کو کھلی دھمکی بھی دی گئی اس پر جب کئی اطراف سے استفسار ہوا تو آپ نے کمال بے پروائی اور بڑے ترش انداز میں جواب دیا:’’ورنہ انہیں اسی طرح ’غداروں کی سرزمین‘ کی طرف بھیجا جائے گا جیسے کہ ہر روز کیا جاتا ہے، اور کچھ؟‘‘ اسکے ساتھ ہی انہوں نے حال ہی میں لائن آف کنٹرول پر جاںبحق ہونے والے تین مبینہ جنگجوؤں کے بارے میں ایک خبر کی لنک بھی ٹویٹ کی-
وجے ترون جو کہ بی جے پی کی تھنک ٹینک سیاما پرشاد مکھرجی فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں نے مسلمانوں کو بڑی ہوشیاری سے پاکستان کے ساتھ جوڑکر اپنی سیاسی تنظیم اور ہندتوا سے وابستہ دیگر جماعتوں کے اس بیانیے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی جہاں مسلمانوں کو ملک دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا حمایتی بھی گردانا جاتا ہے- اسی بیانیے کی بنیاد پر ہندو شدت پسند اکٹھے ہوکر مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں کرتے ہیں جن میں قتل وغارتگری، جلاؤ، گھیراؤ اور خواتین کی عزتوں پر حملے شامل ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947ء کے بعد بھارتی مسلمان ہمیشہ سرکاری اور غیر سرکاری جبر اور تشدد کا شکار رہےہیں اور ملک کے طول و عرض میں ہزاروں چھوٹے بڑے فسادات کا نشانہ بنےہیں جن میں ہزاروں افراد جاں بحق اور لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں- وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حالات اسقدر دگرگوں ہوگئے کہ اب انہیں فسادات میں نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر آئے روز طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس نے معقولیت اور شائستگی کی تمام حدوں کو پامال کردیا ہے- اگرچہ جنوبی بھارت میں کرناٹک صوبے کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی جس سے سیکولر عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کی تحریک مل رہی ہے مگر اب حالات کسی بھی طورایسے نہیںہیں کہ امید کی جاسکےکہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا موثر طریقے سے تدارک کیا جاسکےگا-
وادی کشمیر میں رمضان المبارک کی آمد پر بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے فوج کی طرف سے آزادی پسند جنگوؤں اور سڑکوں پر احتجاج کرنے والے ان کے حمایتی عوام کے خلاف کارروائیوں پر روک لگانے کا اعلان کردیا- گزشتہ دو سالوں میں یہ پہلی بار ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے کوئی مثبت اور کسی سیاسی اقدام کا اعلان کیا - جون2016ء میں شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں اب تک سینکڑوں نوجوان جان بحق اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوں میں ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جنہیں پلیٹ گولیوں کا نشانہ بناکر عمر بھر کیلئے بصارت سے محروم کردیا گیا۔ اس کے علاوہ ہزاروں عام انسانوں کو زینت زنداںبنایا گیا جن میں کافی لوگ ہنوز حراست میں ہیں۔ ایسے گمبھیر حالات میں امن اور سلامتی کی جانب کیا جانے والا کوئی بھی اقدام قابل تحسین ہے۔ بھارت کی مرکزی سرکار کی جانب سے کیا جانے والا اقدام دراصل خفیہ ایجنسیوں کی ان رپورٹوں کی مناسبت سے کیا گیا جن میں بار بار اس امر کو دہرایا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے سخت اقدام بشمول قتل اور غارت گری کی وجہ سے کشمیری نوجوان خوف سے عاری ہوکر فوج کی مزاحمت کر رہے ہیں اور یہ کہ آزادی پسند جنگجوؤں کو جاں بحق کرنے کے باوجود کشمیری جوق در جوق مزاحمتی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ روزنامہ ہندو کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے تجزیہ کاروں نے حکومت کو صلاح دی ہے کہ وہ اپنی سخت گیر پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے کیونکہ بقول ان کے اس سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے اور یہ کہ مستقبل میں بھی اسکے کوئی بہتر نتائج نکلنےکی توقع نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی بیان دیا تھا کہ ان کے پاس کشمیر کو سلجھانے کا کوئی نسخہ موجود نہیں اور یہ کہ اسکو سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ اعتراف دو سال سے جاری اس سخت گیر پالیسی کی نفی کرتا نظر آیا جو انہوں نے جاری عوامی بغاوت کے شروع سے ہی روا رکھی۔
کشمیر کی مزاحمتی تحریک جسکی مشترکہ قیادت سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کررہے ہیں نے اس جنگ بندی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ڈھونگ قرار دیا۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کشمیر میں برسرپیکار آزادی پسند جنگجو تنظیموں حزب المجاہدین اوردیگر نے بھی کیا۔ ایک طرح سے یہ تنظیمیں اس طرح کا ردعمل دکھانے میں حق بجانب ہیں کیونکہ ابتدا سے ہی بھارتی حکومت نے کبھی بھی اپنے وعدؤں اور اعلانات کی پاسداری نہیں کی ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو نے بارہا کشمیر میں استصواب رائے کے اعلانات اور وعدے کئے جو ہنوز تشنہ تکمیل ہیں- اسکے بعد وزیراعظم نرسمہا راؤ نے ’’آسمان کی حد‘‘ تک جانے کی بات کی جبکہ ان کے پیشرو جناب اٹل بہاری واجپائی نے ’’انسانیت کے دائرے‘‘ میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کا عزم کیا۔ مگر یہ وعدے وفا نہ ہوسکے اور ظلم، جبر، تشدد اور قتل و غارتگری کا سلسلہ اب تک جاری ہے جس میں بے گناہ کشمیریوں کو بار بار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر اس تلخ حقیقت سے بھی آنکھیں چرائی نہیں جاسکتیں کہ کئی دہائیوں سے جاری اس مسئلے کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے جس کیلئے برسر زمین امن قائم ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔خود حکومت ہند جنگ بندی کے باوجود کافی غیرسنجیدہ دکھائی دی، اعلان کے صرف چار دن بعد شمالی کشمیر کے آرمپورہ علاقے میں نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے ایک عوامی مظاہرے پر گولہ باری اور فائرنگ کی جس سے ایک آٹھ سالہ بچہ رضوان سر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگیا۔ اس کے دو دن بعد جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں ایک گاؤں میں فوج نے زبردستی ایک افطار پارٹی میں لوگوں کو جمع کرنا چاہا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے ردعمل میں مقامی لوگوں نے سخت مزاحمت کی اور فوج کی جانب سے پھیلائے گئے دسترخوان کو تہس نحس کردیا،اس کے فوراً بعد لوگوں نے آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے- اسکے جواب میں فوج نے فائرنگ کی جس سے دو لڑکیاں زخمی ہوگئیں جن میں ایک شدید مضروب ہو گئی۔ اس طرح جنگ بندی کا یہ دعوی بھی وفا نہ ہوسکا اور امن قائم کرنے کا ایک اور موقع ضائع ہوگیا-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین