• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

30؍ اپریل سے 19 مئی تک 20 روز ہم نے یورپ کے مختلف ممالک ترکی، ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں گزارے۔ یہ ہمارا مطالعاتی سفر تھا۔ ہم دیکھنا اور سیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا اسباب ہیں جن کی بنا پر گوروں نے اپنے ممالک کو جنت نظیر اور عوام کو خوشحال بنایا ہوا ہے۔ ’’اسکنڈے نیویا‘‘ میں اتنا امن کیسے قائم ہے؟ یہاں پر ہر شخص کیوں خوش اور خوشحال ہے؟ ملک کے محافظ ادارے آپس میں گتھم گتھا کیوں نہیں ہوتے؟ بیس دنوں میں ہم نے یورپی معاشرے کا بغور مطالعہ کیا۔ مختلف طبقات سے تبادلۂ خیال ہوا۔ کئی پادریوں سے مکالمے ہوئے۔ یورپ میں مقیم پاکستانیوں سے طویل ملاقاتیں ہوئیں۔مشہور مقولہ ہے: ’’خُذْ مَاصَفَا وَدَعَ مَاکَدِر‘‘ ’’جو تمہیں اچھا لگے وہ لے لو اور جو بُرا لگے، جو گدلا ہو وہ چھوڑدو۔‘‘ اس کے مطابق یورپ کی ان خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انہوں نے دنیاوی اعتبار سے ترقی ہے اور ان کے عوام خوشحال، مطمئن اور پرامن ہیں۔ یورپی معاشرے کی خوبیوں میں سے ایک خوبی سچ گوئی ہے۔ یہ جھوٹ نہیں بولتے، جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ یہ وعدے کی پابندی کرتے ہیں۔ جس کام کا وعدہ کرتے ہیں، ہر ممکن حد تک پورا کرتے ہیں۔ یہ کام چور نہیں ہیں، کام کے وقت میں کام اور چھٹی کے وقت خوب انجوائے کرتے ہیں۔ یہ اپنے کاموں سے جنون کی حد تک لگائو رکھتے ہیں۔ یہ نظافت پسند ہیں۔ ہر چیز میں سلیقہ، صفائی اور نظافت ملے گی۔ گندگی سے نفرت کرتے ہیں۔ کاغذ اور ٹافی کے ریپر کو ہر جگہ نہیں پھینکتے، بلکہ متعین جگہ پر رکھے ہوئے ڈسٹ بن میں ہی ڈالتے ہیں چاہے آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑے۔ یہ ہارن نہیں بجاتے۔ ہم نے 20 دنوں کے دوران 5 ملکوں میں سے کسی میں بھی ہارن اور ٹی ٹاں نہیں سنی۔ یہ اوور اسپیڈ گاڑی نہیں چلاتے۔ اوور ٹیک نہیں کرتے، لال بتی جلنے پر فوراً ہی رُک جاتے ہیں۔ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری بھرکم جرمانے دینے پڑتے ہیں۔ یہ انصاف پسند ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں، ناحق کسی کا مال نہیں کھاتے۔ حق والے کو حق دیتے ہیں۔ بے جا کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ آزادی بلاتفریق قوم، مذہب اور نسل سب کے لئے یکساں ہے۔ تعلیم گاہوں سے لے کر ہسپتالوں تک طبقاتی تفریق کہیں بھی نہیں ہے۔ تعلیم اور علاج معالجہ سب کے لئے فری ہے۔ بچے کی پیدائش پر ’’بچہ الائونس‘‘ دیا جاتا ہے اور 18 سال کی عمر تک دیا جاتا ہے۔ معذور اور بے روزگار شخص کی کفالت حکومت اور اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔ گویا ان ممالک میں عملاً ’’عمرلاز‘‘ نافذ ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرتے ہیں۔ کسی کو ہراساں کرنا جرم ہے۔ سیکورٹی ادارے اپنے شہروں بلکہ کسی کو بھی ’’لاپتہ‘‘ نہیں کرتے۔ لاشیں نہیں ملتیں۔ دھمکیاں نہیں دی جاتیں۔ غدار ہونے کے لیبل نہیں لگتے۔ ہر شخص کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک مرتبہ جہاز، ریل گاڑی، بس، ٹیکسی وغیرہ میں بیٹھنے کے بعد بار بار چیکنگ نہیں ہوتی۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ چیک نہیں کئے جاتے۔ حکمرانوں کے محلات عوام کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ ہمیں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ڈنمارک کی ملکہ کے محل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔ ان کے محافظوں کے ساتھ سیلفیاں لیں۔ اسی طرح ناروے کے شاہ کے محل کے باہر دو گائیڈ متعین تھے۔ ہم نےخوب گھوم پھرکر دیکھا، کسی نے شک کی نگاہ سے نہ دیکھا۔ 17 مئی ناروے کا نیشنل ڈے ہے۔ اس دن ناروے نے ڈنمارک سے آزادی حاصل کی تھی۔ ان کے یومِ آزادی کی تقریب میں ہم بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ شریک تھے۔ شاہ کے محل سے فیس بک پر ہم نے لائیو پروگرام کیا۔ کسی نے روک ٹوک نہ کی۔ یورپ کے عوام اور حکمران میں زیادہ فاصلے نہیں ہیں۔ کئی مرتبہ دیکھا کہ وقت کا حکمران عام مسافروں کے ساتھ عام بس اور میٹرو ٹرین میں سفر کررہا ہوتا ہے، اور اس میں وہ ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتا، بلکہ فخر محسوس کرتا ہے۔ یورپی ممالک میں کرپشن نہیں ہے۔ بدعنوانی بہت بڑا جرم ہے۔ اس کی کڑی سزا ہے۔ یورپی ممالک کے سیاسی نظام میں اقربا پروری بھی نہیں ہے۔ یورپ کے لوگ اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ہیں، اپنے وطن کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے سنتے ہیں۔ یہاں پر سڑک پر چلنے والوں میں پہلے پیدل چلنے والے کا حق ہوتا ہے، پھر سائیکل والوں کا اور اس کے بعد گاڑی والوں کا۔ سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ صحت بھی بہتر رہے اور آلودگی بھی نہ پھیلے۔ ہر ایک دوسرے کا خیال رکھتا ہے۔ میں نے ترکی، ناروے، ڈنمارک ان تین ممالک میں 19 دن گزارے۔ کہیں کوئی ٹریفک حادثہ پیش نہیں آیا۔ کسی گاڑی کا ہارن نہیں سنا۔ سفر کرتے وقت کوئی خوف اور ڈر محسوس نہیں ہوا۔ بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ یہ سفر طے ہوا۔ یہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے معاملات کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے قائل ہیں۔ یہاں پر پولیس کے پاس اور عدالت میں معاملات بہت ہی کم جاتے ہیں۔ اکثر مسائل خود ہی آپس میں حل کرلیتے ہیں۔ یہ اپنے ملک میں درخت اور پودے بہت لگاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی نہیں ہے۔ جہاں پرہے وہاں اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اسکنڈے سے تینوں ممالک نے 2025ء تک تیل پر چلنے والی گاڑیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہر چیز بجلی پر کردی ہے۔ ہر شخص ورزش کرتا ہے۔ بوڑھا ہو یا بوڑھی، لڑکا ہو یا لڑکی، بچہ ہو یا بچی بیمار ہو یا تندرست ہر ایک ورزش، واک، چلنے پھرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہسپتالوں میں مریض بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں ناروے کے دوسرے بڑے اور تفریحی شہر ’’بیرگن‘‘ کے دو بڑے ہسپتالوں کا جائزہ لینے کا اتفاق ہوا۔ مریض نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کی خوراک اچھی ہوتی ہے۔ ملاوٹ شدہ اشیاء نہیں ہوتیں۔ ملاوٹ اور جعلی اشیائے خوردونوش بنانے اور فروخت کرنے کی سخت ترین سزا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء خالص اور صحت افزا ہوتی ہیں۔ ان میں کسی قسم کی ملاوٹ اور دونمبری نہیں ہوتی ہے۔ میں نے یورپ کے تین اہم ممالک دیکھے ہیں۔ ان ممالک میں پانی صاف شفاف اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ تعلیم مفت اور ہر شخص پر لازم ہے بیرگن یونیورسٹی میں پورا دن گزارا۔ وہاں کے نظامِ تعلیم کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ آگے بڑھنے کا جذبہ سب میں پایا جاتا ہے۔ یورپ کے لوگ اپنے کام کے اوقات میں ڈٹ کر کام کرتے ہیں۔ یہ کام چور نہیں ہیں اور تفریح کے وقت بھی خوب تفریح کرتے ہیں۔ دور دور جنگلوں، پہاڑوں، آبشاروں پر چلے جاتے ہیں تاکہ ذہن تازہ ہوسکے۔ یہ انتھک محنت کے عادی ہیں۔ یورپ میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ مفت خوری کی عادت صرف ہم جیسے ممالک میں ہی ہے۔ ترکی، ناروے اور ڈنمارک کے کئی شہر وں میں جا نا ہوا۔ کہیں بھی سائن بورڈ پر فحش اور بے ہودہ اشتہارات نظر نہ آئے۔آپ یقین کیجیے کہ سائن بورڈ صرف عوام کی راہنمائی کے لئے ہی تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا نیون سائن بورڈ نظر نہ آیا جس پر صنف نازک کی عریاں یا نیم عریاں تصاویر ہوں۔ترکی میں ہم نے9 دن گزارے، ترکی کے نظام کا جائزہ لینے کی پوری کوشش کی۔ ترکی کا سیاسی نظام ہو یا بلدیاتی، اس کا انفراسٹرکچر ہو یا ویلفیئر کا سسٹم، ترکی نے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت پر کس طرح قابو پایا؟ہم نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے حکمراں یورپی ممالک کے دورے کرتے ہیں، مگر سیکھتےکچھ نہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین