• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے نومبر 2014 ءمیں کراچی میں رینجرز کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ عراق اور شام میں دہشت پھیلانے والی تنظیم داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے ،اسی موقع پر انہوں نے اپنے مخصوص ناصحانہ انداز میں میڈیا کو داعش سے متعلق تشویش پیدا کرنے والی خبروں کی نشرو اشاعت سے باز رہنے کی بھی تلقین کی تھی۔ قوم ابھی وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان پر گو مگو کی کیفیت میں ہی تھی کہ صرف پانچ ماہ بعد ہی اسی شہر میں دہشت گردوں نے صفورا گوٹھ میں بس پر حملہ کر کے اسماعیلی برادری کے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ان دہشت گردوں کا تعلق اسی تنظیم داعش سے پایا گیا جس کے ملک میں وجود سے انکار کیا جا رہا تھا۔ داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی طرف سے پاکستان میں اس بڑی کارروائی سے پہلے اور بعد میں بھی صرف وفاقی وزارت داخلہ ہی نہیں بلکہ دیگر اعلیٰ حکام کی طرف سے بھی داعش کی پاکستان میں موجودگی سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔ کسی نے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ اس کا منظم وجود نہیں ہے تو کوئی یہ کہہ کر بہلاتا رہا کہ شدت پسند گروپ داعش کی چھتری تلے پناہ لینا چاہتے ہیں تاہم طالبان کی طرح اس کا اپنا نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ اور تو اور اگر امریکی صدر ،کانگریس کے کسی رکن یا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرے کے بارے میں آگاہ کیا تو اس پر بھی ناک بھوں چڑھائی گئی۔ یہ تو بھلا ہو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کا جنہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بغیر کسی لگی لپٹی کے اعتراف کیا کہ پاکستان میں نہ صرف داعش موجود ہے بلکہ اس کا نیٹ ورک پکڑبھی لیا گیا ہے۔ یہ بریفنگ پہلے ان کیمرا تھی تاہم بعد میں اس کا کچھ حصہ میڈیا کے لئے اوپن کر دیا گیا اور یوں عوام کی الجھن دور ہو گئی ورنہ اگر قائمہ کمیٹی کی ساری کارروائی ان کیمرا ہوتی تو وفاقی حکومت کے دانش وروں کو ایک بار پھر اگر مگر اور چوں کہ چناچہ کا سہارا لے کر یہی کہنا تھا کہ کون سی داعش،کہاں کی داعش۔ ظاہر ہے بھئی نہ تو داعش نے پاکستان میں اپنا کوئی دفتر بنایا ،نہ انہیں اتنی عقل سوجھی کہ وہ کوئی بل بورڈ یا ہورڈنگ لٹکا دیتے اور نہ ہی انہوں نے کوئی باقاعدہ ریکروٹمنٹ سینٹر قائم کر کے اس پر تختی لگائی تو ایسے کوئی وجود تسلیم کرتا ہے۔ ویسے آفرین ہے وفاقی حکومت پر بھی جس کے’’بڑے‘‘ اس بات پر تو تلملا اٹھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کاکریڈٹ عسکری قیادت اور اداروں کو دیا جاتا ہے لیکن وہ اتنی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ داعش کے بارے میں اس خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے انکشاف کے بعد کوئی باضابطہ پالیسی بیان ہی جاری کر دیتے یا قوم کوتسلی و تشفی دینے کے لئے دو شبد ہی بول دیتے جو ایجنسی براہ راست ان کے ماتحت ہے۔ یہ کار خیر بھی بالآخر عسکری قیادت کو ہی سر انجام دینا پڑا اور مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جیو نیوز پر شاہ زیب خانزادہ سے بات چیت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستانیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،داعش سمیت کوئی دہشت گرد تنظیم پاکستان میں پنجے نہیں گاڑ سکتی۔ یقینا ان الفاظ سے قوم کو حوصلہ ملا ہے کہ مادر وطن کا دفاع کرنے والے داعش کی صورت میں پاکستان کو درپیش نئے خطرے سے بھی کسی طور غافل نہیں ہیں لیکن یہاں یہ ذکر نہ کرنا پیشہ وارانہ بد دیانتی ہوگی کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ سال اکتوبر میں لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز سے خطاب کرتے ہوئے داعش کو القاعدہ سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا ،انہوں نے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دیں گے لیکن ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی کر دی تھی کہ داعش مستقبل کا چیلنج ہے۔ یہاں قارئین کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس چیلنج کا پاکستان کو اب کس حد تک سامنا ہے اور عراق اور شام میں چنگیز خان اور منگولوں کی بربریت کی یاد تازہ کرنے والی تنظیم داعش کس حد تک پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکی ہے۔ 2014 ء میں ابو بکر البغدادی کی طرف سے خلافت کے اعلان اور پانچ سالہ توسیعی منصوبے کا اعلان کیا گیا۔اسی اعلان میں اس نے داعش کی خلافت میں پاکستان اور افغانستان پر مشتمل علاقے کی خراسان صوبے کے طور پر نشان دہی کی۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں پہلی بار داعش کے پمفلٹس اور واال چاکنگ نظر آئی۔ سب سے پہلے ایک شدت پسند تنظیم کے ترجمان نے داعش سے رجوع کرنے کا اعلان کیا اور پھر حافظ سعید خان اور شاہد اللہ شاہد سمیت طالبان کے چھ کمانڈروں نے بغدادی سے الحاق کا اعلان کیا۔ داعش کی طرف سے اسی حافظ سعید خان کو خراسان کا ولی یعنی سربراہ مقرر کر دیا گیا جس کی بعدمیں ڈرون حملے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ افغانستان کے پاکستان سے سے متصل صوبوں میں داعش کے مضبوط ہونے سے اس کابراہ راست اثرقبائلی علاقوں میں نظر آیا جبکہ افغان صوبوں میں داعش کے ایف ایم ریڈیو کی نشریات اس وقت بھی مہمند اور ملحقہ ایجنسیوں میں بھی سنی جا رہی ہیں۔ یہ نشریات پشتوزبان میں ہیں جس کے ذریعے خلافت اور جہاد کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے۔ قبائلی علاقوں کے بعد داعش کے ملک کے دیگرحصوں میں بھی رابطے سامنے آئے۔بلوچستان سے جند اللہ نے داعش سے رجوع کیا۔ دسمبر 2014ءمیں لاہور سے ایک شامی کمانڈر یوسف سلفی کو گرفتار کیا گیا جو پاکستانیوں کی داعش میں بھرتی کے خصوصی مشن پر ترکی سے پاکستان آیا تھا۔اسی دوران بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے رپورٹ دی کہ ایک کالعدم تنظیم کے تعاون سے دولت اسلامیہ کا مقامی ڈھانچہ وجود میں آچکا ہے اور بلوچ نوجوانوں کی بھرتی کا عمل جاری ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، ایک اور کالعدم تنظیم جو اس وقت دوسرے نام سے سرگرمیا ں جاری رکھے ہوئے ہے اور داعش کی حمایت کرنے لگی ہیں۔ ادھرایک اور مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ پکڑا گیا جو اسکائپ اور دیگر ذرائع سے شام میں داعش کے کمانڈر امیر معاویہ کے ساتھ رابطے میں تھا۔لاہور میں ہی خواتین کے ایک ادارے سے تین خواتین کے شام جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہی نہیں بلکہ وزیر قانون پنجاب نے اعتراف کیا کہ پنجاب سے تقریبا 100 افراد عراق اور شام جا چکے ہیں۔ کراچی میں ایک نجی یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدے دار اور دوسرے تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ کو داعش سے تعلق کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا جبکہ داعش کیلئے چندہ جمع کرنے والی دو خواتین بھی گرفتار کی گئیں۔یہ امر بھی تشویش ناک ہے کہ داعش کی طرف راغب ہونے والوں میں مذہبی رجحانات رکھنے والوں کیساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے انکار کی روش ترک کی جائے اورداعش کو مستقبل کے چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کی ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے جس میں سیاسی اور عسکری قیادت کی مشاورت شامل ہو۔ فی الحال تو داعش کی تبلیغ اور بیانیے کا توڑ کرنے کی ذمہ داری بھی عسکری قیادت ہی ادا کر رہی ہے جس نے حال ہی میں اپنے ہیڈکوارٹر میں ملک بھر کے علمائے کرام اور مدارس کی انتظامیہ کے ساتھ ایک طویل بیٹھک کی ہے۔
تازہ ترین