• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ ریڈیکل (انتہا پسند) اسلام ہے۔ دو برس قبل ٹونی بلیئر کی خود نوشت شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ مغربی ممالک کی غیر متوازن پالیسیاں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔ اپنی خود نوشت کی اشاعت کے موقع پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق برطانوی وزیر اعظم جنہوں نے صدام حسین کے پاس نیو کلیئر ہتھیاروں کی بھاری کھیپ ہے کہہ کر عراق پر چڑھائی کی تھی۔ بی بی سی کو بتایا ہے کہ انتہا پسند اپنے اسلام کو کمیونزم سے جوڑتے ہیں وہ اپنے نظریات کو بنیاد بناکر اپنا ہر فعل درست سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول ان کیلئے تبدیلی کا لمحہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کا حملہ تھا۔ ٹونی بلیئر نے لکھا ہے کہ ”میرے لئے اس کا جواب بہت سادہ تھا ، مذہبی نظریہ کی بنیاد پر نیو یارک کی گلیوں میں ایک دن میں تین ہزار لوگ مار دیئے گئے میرے لئے اہم بات یہ تھی کہ اگر انہیں تیس ہزار یا تین لاکھ لوگ بھی مارنے پڑتے تو وہ مار دیتے اسی لئے مجھے محسوس ہوا کہ خارجہ پالیسی میں مکمل طور پر نظرثانی کا وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایک نئے اور مختلف قسم کے خطرے کا سامنا تھا۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ برطانیہ کو اندرون ملک انتہائی پرجوش انتہا پسندوں یا شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ ہے جو نہ صرف القاعدہ کے طریق کار میں تبدیلی اور جیلوں میں قید مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ نظریات کا نتیجہ ہے بلکہ بے گانگی اور برشتگی پر توجہ مرکوز کرنے والی خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ ٹونی بلیئر اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”مجھے غلط کہیں یا صحیح لیکن مجھے یہی لگا کہ 11 ستمبر کے بعد ”خطرے کے پیمانے“ میں تبدیلی آگئی ہے اور آج بھی یہی صورت حال ہے میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ انتہا پسند اور ان کی شدت پسند تحریکیں اور ان کی طرف سے جوہری ، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے حملوں کا عزم ، ہمارے لئے سب سے بڑے خطرات ہیں۔ ٹونی نے لکھا ہے کہ انتہا پسند اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے عراق اور افغانستان میں برطانوی افواج کی موجودگی کا جواز اور اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین ، چیچنیا ، کشمیر ، عراق اور افغانستان میں انتہا پسندی ناقابل برداشت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دہشت گردی کی مہم نہ چلاتے تو غیر ملکی افواج کب کی عراق اور افغانستان چھوڑ چکی ہوتیں۔ اس لئے دہشت گردوں کا یہ جواز کہ وہ غیر ملکی قبضے کے خلاف نبرد آزما ہیں بالکل فضول اور کچرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”امریکی فوجی عراق چھوڑ چکے ہیں لیکن انتہا پسند ابھی تک بغداد میں کار دھماکے کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنا نہیں بلکہ وہاں کی حکومت کو گرانا ہے جسے عوام نے منتخب کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اعتراف کیا ہے کہ وہ تاحال یہ نہیں سمجھ سکے کہ انتہا پسندانہ اسلامی نظریات سے مکمل طور پر چھٹکارا کیسے پایا جائے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ایک بات واضح طور پر کہی ہے کہ ایران انتہا پسند اسلام کی سرپرستی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی طریقے سے اسے جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے۔
ٹونی بلیئر کے خیالات کی تائید میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی یہی کہا ہے کہ حالات بتاتے ہیں کہ حملوں کا ایک سلسلہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے۔ جس میں القاعدہ کے کئی حملوں میں انفرادی کردار سامنے آئیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ برطانوی تجزیہ نگار برطانیہ پر حملوں سے متفکر ہیں ان کے تجزیہ کے مطابق جہاں تک درون ملک پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا تعلق ہے برطانیہ کو کسی بھی دوسرے مغربی ملک سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اب نہ صرف خطرات کی نوعیت بدلی ہوئی ہے بلکہ اس کا اصل بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے جہاں پاک افغان سرحد سے برطانیہ میں لگ بھگ سبھی حملوں کی پلاننگ ہوتی تھی اور تحریک ملتی تھی وہیں اب عرب جزیرہ نما میں القاعدہ انتہائی سرگرم ہوچکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہالینڈ میں کرسمس کے موقع پر ایک امریکی طیارہ کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام سازش میں اس بدلے ہوئے منظر نامے کا دخل تھا۔
2009ء سے اب تک برطانیہ کے خلاف دہشت گردی کی 20 سازشیں کی گئیں جن میں سے صرف ایک کامیاب رہی اور وہ تھی جولائی کے مہینے میں لندن میں چار پاکستانی نژاد برطانویوں نے دھماکے کرکے 52 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ان حملوں کی سازش کے الزام میں 230 سے زیادہ افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا لیکن جیل میں قید مسلمانوں میں انتہا پسندی اور کٹر پن کے نظریات پھیلنے سے حکومت کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سال میں لگ بھگ 800 امکانی انتہا پسند عناصر جیل سے رہائی کے بعد سامنے آسکتے ہیں ان میں ایک بڑا نام عالم انوراولا کے ”شاگردوں“ کا ہے یہ ایک نمایاں متحرک امریکی ہے جس کا تعلق امریکہ کی سائیکیڑٹ برادری سے ہے اس نے 2003ء میں 13 فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اولا کی کے شاگرد دوسرے نئے انتہا پسند لیڈر اب انفرادی طور پر لوگوں کو دہشت گردی کے لئے تیار کررہے ہیں تاکہ وہ کھیلوں کے بڑے بڑے ٹورنامنٹس ، ہوٹلوں اور عوامی اجتماعوں کو نشانہ بناسکیں۔ علاوہ ازیں دہشت گرد انفرادی طور پر اہم ، مقبول ، مشہور اور معروف شخصیات کو بھی نشانے پر رکھ سکتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی شے مانع نہیں کہ ایسی کوششوں میں کوئی ایک کوشش بڑے پیمانے پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ وہ چاہے مسلمان انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہو یا کسی اور کے ، ہمیں محتاط اور چوکنا رہنا ہوگا کہ مسلمانوں کی کمزوریاں غلطیاں اور بدنصیبیاں امریکہ کی ایجاد کردہ نہیں وہ صرف اسے استعمال کرنے اور فائدہ اٹھانے کا قصور وار ہے۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور یہ جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ کون دشمن نہیں ہے۔ امریکہ کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک پاکستان میں جاگیرداری ختم نہیں ہوتی وہ پاکستان میں کبھی جاپان یا کوریا جیسا معاشرہ نہیں دیکھ سکتا۔
دوسری طرف امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے شہریوں کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ یورپ کے دورہ سے گریز کریں کہ یورپی ممالک میں دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے۔ انہی خطرات کو برطانوی حکومت نے ملک میں القاعدہ سے لاحق خطرہ کی شدت کو جو عمومی نوعیت کی تھی بڑھاکر سنگین قرار دے ڈالا ہے۔ امریکہ کی انٹیلی جنس نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور شمالی افریقہ کے بعض دہشت گردوں کی جانب سے یورپ پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور اٹلی ان کے خاص نشانوں پر ہوں گے۔ یورپ کے اخبارات کی رپورٹوں میں تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ یورپی شہروں میں ممبئی طرز کے حملوں کی سازش تیار کرنے والے پاکستانی و عرب دہشت گردوں کی نظر میں ایفل ٹاور ، نوٹرڈیم کا کیتھرلیل، برلن کا سینٹرل سٹیشن نمایاں مقامات رکھتے ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں ہر سال لاکھوں افراد ان کی سیاحت اور مشاہدے کیلئے آتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جارہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ایک پاکستانی نژاد جرمن شہری کو حراست میں لیا گیا تھا جس نے نشانوں کی فہرست فراہم کی اس سے افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے پر گرفتاری کے بعد مزید پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ادھر جاپانی کی وزارت خارجہ نے بھی یورپ کا سفر کرنے والے یا وہاں مقیم جاپانی شہریوں کو چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں متنبہ کیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کی جانب سے یورپ میں انتہائی شدید حملوں کا امکان موجود ہے۔ میرے حساب سے دہشت گردی کی کالی بلی کی تاریک کمرے میں تلاش ہورہی ہے جو وہاں نہیں ہے۔
تازہ ترین