• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خلیل جبران نے زندگی اور موت پر بہت دلنشین اور گہری گفتگو کی ہے کہ "میں وادی میں ٹہل رہا تھا کہ سرمدی وجود کے اسرار کا اعلان کرتے ہوئے عروس سحر نے اپنے روشن چہرے سے نقاب الٹ دی اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ندی چٹانوں میں بہہ رہی ہے اور بلند آواز میں یہ دلنشین نغمہ الاپ رہی ہے۔ زندگی کیا ہے؟ عیش کوشی ؟ نہیں زندگی صرف مقصد اور اس کی امنگ ہے۔ موت کیا ہے؟ فنا ونیستی ؟ نہیں موت صرف مقصد سے بے حسی اور مایوسی ہے"۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم غور کریں کہ بطور قوم ہم موت کی دہلیز پر آ پہنچے ہیں یا زندگی کی جانب رواں دواں ہیں۔ قوم کا مقصد اور امنگ کیا ہونی چاہئے۔ یقیناً یہ کہ ہر شخص زندگی بطور انسان کے بسر کرے نہ کے جانوروں کی مانند بس زندگی گزار دے۔ قوم یہ مقصد صرف ریاست کی مضبوطی اور اس کی فعالیت سے حاصل کر سکتی ہے۔ اور یہ دونوں مقاصد موثر انتظامیہ کے ذریعے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ موثر انتظامیہ یعنی سرکاری ملازمین جو منتخب اداروں کے پابند ہوں بے جا تنقید اور ہمہ وقت تنقید کا نتیجہ سوائے تخریب کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ تذلیل سے تشکیل ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اس معاملے کو ثابت کرنے کے واسطے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے شہری ادارے نہ صرف موجود ہیں بلکہ کارکردگی کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ ایسا نہ کر رہے ہوتے تو چارسدہ سانحہ پر پہلا موثر رد عمل مقامی تھانے کی جانب سے نہ ہوتا۔ ہمارے سینکڑوں پولیس ملازمین دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے نبردآزما ہوتے ہوئے شہادت پا گئے معذور ہو گئے۔ اور یہ امر صرف پولیس پر ہی موقوف نہیں ہے ۔ جب واپڈا کا لائن مین کھمبے پر چڑھا بجلی بحال کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی موت اس سے چند ثانیوں کے فاصلے پر ہی موجود ہوتی ہے۔ چارسدہ ہی کا اسسٹنٹ پروفیسر حامد حسین اور دیگر کے انگنت تذکرے موجود ہیں۔ مگر ایک دوسرا پہلوبھی ہمارا منہ چڑانے کے واسطے موجود ہے۔ عوام کی متعدد شکایات جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ایک سے بڑھ کر ایک کہانی کہ جس میں انسان کی توہین ایسے عریاں ہوتی ہے کہ جیسے مردار پر گدھ محو رقص ہو۔ اس معاملے میں بھی کسی ادارے کو استثناء حاصل نہیں ہے جب ہم اس معاملے پر غور کریں تو نوشتہ دیوار یہ ہوگا کہ یہاں فرد اپنی ذات سے حساس ہے یا بے حس ہے۔ جبکہ جس نظام کے تحت جن قوانین کے ذریعے ان محکموں کو فعال رکھا جا رہا ہے وہ گل سڑ چکے ہیں۔ ان میں یہ تاب ہی نہیں رہی کہ وہ جزاء اور سزا کے عمل کو سر انجام دے سکیں۔ ادارہ جاتی احتساب صرف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ خواب بھی ایسا کہ جو چکنا چور ہو چکا ہو۔ جب یہ طے ہو چکا کہ نظام کو جڑ سے اکھاڑے بناء انسان کو بطور انسان جینے کا حق نہیں دلایا جا سکتا تو ان کو اکھاڑ پھینکنے میں تاخیر کیسی؟ لیکن یہاں یہ سوال سامنے دھرا رکھا ہے کہ اس کو اکھاڑ کر نیا پودا کون سا بویا جائے۔ ہم جس عہد میں جینے کا گمان رکھتے ہیں اس کے دامن میں تجربات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ کمیونزم اور اس کی بیوروکریسی ، سرمایہ دار ممالک اور ان کی بیورو کریسی وطن عزیز میں آمریت کے مختلف ادوار اور ان کے نتیجے میں ریاست کی کمزوری۔ ان تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ریاست میں بنیادی حیثیت سرکاری ملازمین کی ہوتی ہے ۔ پاکستان کی بیوروکریسی کا DNA تبدیل کرنیکی ضرورت ہے۔ تا کہ شہریوں سے رعایا کی مانند سلوک کرنے کا وطیرہ تبدیل کیا جاسکے۔ بیورو کریسی کی تنظیم نو ہو اس طریقہ کار خاتمہ کیا جائے کہ آج ایک ملازم شعبہ زراعت میں ہے تو کل قبائلی علاقے میں پولیٹکل ایجنٹ کے طور پر تعینات ہے۔ نئے سروس گروپوں کا قیام عمل میں لایا جائے جیسے تعلیم ، صحت ، زراعت ، انڈسٹری اور ان کے متعلقہ محکموں کا اپنا اپنا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن قائم کیا جائے۔ تا کہ کوئی گروپ کسی دوسرے گروپ کے زیر اثر نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ ملازمین جس شہر میں ضرورت ہو وہاں سے ہی بھرتی کیے جائیں۔ IT کا دور دورہ ہے اس کی مدد سے کم ملازمین کے ذریعے زیادہ سروسز فراہم کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا ملازمین کا کم سے کم عوام سے تعلق قائم کیا جائے۔ افسران کی مکمل کیریئر پلاننگ ہو کہ کتنے عرصے کس جگہ پر گزارنے ہیں۔ افسران کی بھرتی ، تعیناتی معطلی اور برخاستگی کا نظام شفاف ہو ۔ بہتر شرائط ملازمت فراہم کی جائے۔ ایک مدت مقرر ہو جس پر عمل بھی کیا جائے کہ کس افسر کی مقام تعیناتی کتنی ہو گی۔ اعلیٰ افسران کی برخاستگی کی صورت میں تمام معاملہ اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں کے سامنے بھی از خود چلا جائے تا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے امکان کو سبز جھنڈی دکھائی جا سکے۔ قانون نافذ کرنے والے اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کی غرض سے ان کے خلاف شکایات سننے کے لئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ماتحت سمری ٹرائل کی طرز پر عدالتیں ہوں جن میں ججز کو موجودہ طریقہ کار کے تحت ہی تعینات کیا جائے۔ تا کہ ریاست کی طاقت کے غلط استعمال پر جلد از جلد کڑی سزا دی جا سکے۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہی عدالتوں کے تحت ان لوگوں کے مقدمات بھی آئے کہ اگر کوئی فرد ریاست کے ان دونوں اداروں کے ملازمین ، ملازمین کے متعلقین یا قانون کی مدد کرتے کسی شہری کو نقصان پہنچائے تو سزا بھی فوراً بھگتے۔ ایک سال کے تجربے کے بعد جو قباحت اس نظام کی سامنے آئے ان کو رفع کر کے اس کا دائرہ عمل تمام بیورو کریسی پر نافذ کر دیا جائے۔ خلیل جبران پر ہی خاتمہ کلام کرتا ہوں کہ کچلی ہوئی روح بھی ضروریات سے نجات نہیں پا سکتی۔ اور نہ نا انصافی سے نجات فطری ضرورت ہے۔
تازہ ترین