• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان صاحب کا اصرار ہے کہ انہوں نے 1977ء میں فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت نہیں دی تھی۔ 22اکتوبر 2012ء کو میں نے اپنے کالم میں اُن کے خط کا ذکر کیا تھا جو انہوں نے 1977ء میں فوج کو لکھا تھا۔ 24اکتوبر کو جناب اصغر خان کا جواب روزنامہ جنگ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 1977ء میں اُنہوں نے فوج کو کوئی خط نہیں لکھا تھا البتہ اُنہوں نے ایک خط اخبارات کو بھیجا تھا جس میں ایک بچے پر گولی چلانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ فوج صرف آئینی احکامات پر عملدرآمد کرے۔ اصغرخان صاحب نے اپنے جواب میں 1942ء کا ایک واقعہ بھی بیان کیا جس کے مطابق انہیں ایک انگریز افسر نے سانگھڑ میں حروں پر بمباری کا حکم دیا لیکن اصغر خان نے بمباری نہیں کی کیونکہ حروں کے قافلے میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ 1942ء میں اصغر خان نے واقعی انسان دوستی کا مظاہرہ کیا جس پر وہ انتہائی تحسین کے مستحق ہیں۔ میں ایک صحافی کے طور پر انہیں پچھلے 25سال سے جانتا ہوں۔ 1990ء کے انتخابات میں جو کچھ بھی ہوا میں اُس کا عینی شاہد ہوں۔ شاید اُنہیں یاد ہو کہ 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد اُن کی بے نظیر صاحبہ کے ساتھ پہلی ملاقات کی خبر اسی خاکسار نے روزنامہ جنگ میں شائع کی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد روزنامہ جنگ سے کافی ناراض تھیں۔ وہ ہمارے اخبار کو انٹرویو نہیں دے رہی تھیں تاہم میرے اصرار پر انہوں نے مجھے اسلام آباد میں انٹرویو کا وقت دیا۔ انٹرویو کے دوران بے نظیر صاحبہ کو بتایا گیا کہ اصغر خان کے ساتھ ان کی ملاقات کا وقت طے ہو گیا ہے۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد میں نے سابق وزیراعظم صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ اصغر خان صاحب کے ساتھ مل کر کوئی سیاسی اتحاد بنائیں گی ؟ بے نظیر صاحبہ نے جواب میں کہا کہ اصغر خان کے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تعلقات بڑے کشیدہ تھے اور اصغر خان نے فوج کو ایک خط بھی لکھا تھا لیکن آج اصغر خان ہمارے ساتھ مل کر سیاست کرنا چاہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہو گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور اصغر خان نے پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس کے نام سے اتحاد بنایا جو ان کے سیاسی مخالفین کے لئے دھماکے سے کم نہ تھا۔ لاہور میں خورشید قصوری صاحب کے گھر اصغر خان صاحب کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی تھی اور ان ملاقاتوں میں بھی میری کوشش ہوتی تھی کہ 1977ء کے مارشل لاء کی وجوہات پر گفتگو کی جائے لیکن اصغر خان پیپلز پارٹی کے اتحادی بن چکے تھے اس لئے وہ ”پرانی باتیں مت کرو“ کہہ کر میرے سوالات ٹال دیتے تھے۔ 1996ء میں انہوں نے آئی ایس آئی کے ذریعہ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تو میں نے ہمیشہ ان کے اس قدم کو سراہا اور 22اکتوبر کے کالم میں بھی یہی لکھا کہ اس مقدمے کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ میری گزارش صرف اتنی ہے کہ اصغر خان اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں تو ان کی عزت میں مزید اضافہ ہو گا۔
میں ایک دفعہ پھر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اصغر خان میرے لئے بہت قابل احترام ہیں اور میں تمام تر احترام کے ساتھ یہ جواب الجواب تحریر کر رہا ہوں۔ انہوں نے 24اکتوبر کے جواب میں لکھا ہے کہ انہوں نے 1977ء میں فوج کو کوئی خط نہیں لکھا البتہ ایک خط اخبارات کو جاری کیا تھا۔ میں انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ 1977ء میں وہ پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھے۔ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد نے تحریک شروع کی تو بھٹو حکومت نے اس تحریک کو کنٹرول کرنے کیلئے فوج کو بلا لیا۔ فوج نے لاہور میں قومی اتحاد کے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا۔ 25اپریل 1977ء کو اصغر خان صاحب کی طرف سے انگریزی میں ایک خط لکھا گیا جس کے آغاز میں کہا گیا کہ میرا یہ پیغام افواج پاکستان کے سربراہ اور افسروں کے نام ہے۔ اس خط میں اصغر خان نے فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کی اور ایک غیرقانونی حکومت کی حفاظت کرنا فوج پر لازم نہیں۔ یقینا اصغر خان نے اس خط میں فوج سے کہا کہ نہتے شہریوں پر گولیاں نہ چلائی جائیں لیکن خط کے آخر میں لکھا کہ وقت آ گیا ہے کہ قوم کا ہر فرد اپنے آپ سے پوچھے کہ وہ صحیح کر رہا ہے یا غلط اور فوجی افسروں سے کہا گیا آپ کے لئے وقت آ گیا ہے کہ میری اپیل کا ایمانداری سے جواب دیں اور پاکستان کو بچائیں۔
اصغر خان نے فوجی افسروں کو یہی کہا کہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو سے بچائیں۔ یہ نہیں لکھا کہ کیسے بچائیں لیکن اگر قومی اتحاد میں اصغر خان کے ساتھی پروفیسر غفور احمد کی کتاب ”پھر مارشل لاء آ گیا“ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصغر خان کو فوج کے عزائم کا پہلے سے پتہ تھا۔ پروفیسر غفور احمد نے مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کئے تھے۔ یہ مذاکرات پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب کی کوششوں سے شروع ہوئے۔ حکومتی وفد کی طرف سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی نے مذاکرات کئے۔ پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بھٹو حکومت قومی اتحاد سے معاہدے کے لئے تیار تھی لیکن اصغرخان معاہدے کے حق میں نہ تھے۔ اس کتاب میں اصغر خان کے فوج سے روابط کے اشارے موجود ہیں۔
مولانا کوثر نیازی کی کتاب ”اور لائن کٹ گئی“ میں کہا گیا ہے کہ اصغر خان تو سرے سے مذاکرات کے خلاف تھے اور انہوں نے جیل سے پیغام بھجوایا تھا کہ فوج عنقریب اقتدار سنبھالنے والی ہے اور 90دن میں الیکشن کرا دے گی۔ مولانا کوثر نیازی نے پروفیسر غفور احمد کے علاوہ نوابزادہ نصراللہ خان، سردار عبدالقیوم خان اور مولانا مفتی محمود کے نام بطور گواہ لکھے جو جانتے تھے کہ اصغر خان کا فوج سے رابطہ تھا۔ کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ 2جولائی کی صبح پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد میں تمام امور طے پا گئے۔ مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد قومی اتحاد کی ہائی کمان سے حتمی منظوری لینے کیلئے کرنل (ر) تصدق حسین کے گھر پہنچے تو اصغر خان نے سمجھوتے کی شدید مخالفت کی حالانکہ حکومت اکتوبر 1977ء میں نئے انتخابات پر راضی ہو گئی تھی۔ اصغرخان نے کہا کہ آپ لوگ درمیان سے ہٹ جائیں، میں تمام معاملات کو خود ہینڈل کروں گا اور فوج کی طرف سے یہ گارنٹی دینے کے لئے تیار ہوں کہ مارشل لاء لگنے کے 90دن کے اندر اندر فوج الیکشن کرا دے گی۔ مولانا مفتی محمود نے اصغر خان سے اختلاف کیا اور کہا کہ فوج آئی تو بھٹو کو ختم کر دے گی لیکن ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ 3جولائی کی صبح سردار عبدالقیوم خان نے مولانا کوثر نیازی سے ملاقات کی اور کہا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں کا فوج سے رابطہ ہے آرمی ٹیک اوور کا خطرہ ہے بھٹو صاحب سے کہیں جلدی سمجھوتے کا اعلان کریں۔ 4جولائی کی رات ساڑھے گیارہ بجے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ 5جولائی کو سمجھوتے پر دستخط کر دیں گے لیکن 5جولائی کی صبح مارشل لاء لگ گیا اور گیارہ سال تک ایک جرنیل نے پاکستان پر حکومت کی۔ اصغر خان صاحب سے مودبانہ گزارش ہے کہ پروفیسر غفور احمد اور مولانا کوثر نیازی کی کتابوں کی روشنی میں 25اپریل 1977ء کو فوج کو لکھے گئے خط کو پڑھیں اور مناسب سمجھیں تو ماضی کی دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کا اعتراف کر لیں ان کی عزت میں اضافہ ہو گا ۔ اگر وہ اعتراف نہیں کرتے تو تاریخ میں سچ وہی تسلیم کیا جائے گا جو پروفیسر غفور احمد اور مولانا کوثر نیازی نے لکھا۔
تازہ ترین