آئیے سب مل کر سوچیں کہ یہ سیاہی ہمارے چہرے کا مقدر ہی کیوں ہے اور کب تک ہمارے اجتماعی چہرے سے چپکی رہے گی؟ عالم اسلام کی بیشتر اشرافیہ بیماری کی حد تک لالچی، خائن اور ہوس کی ماری ہوئی کیوں ہے؟ یہ سب کسی غیر مسلم مغربی ملک میں ہوا ہوتا تو میں ایک کان سے سن کردوسرے سے نکال دیتا یا خبر کی سرخی پڑھ کر ہی چھوڑ دیتا کہ جائیں جہنم میں لیکن کسی مسلمان ملک سے آنے والی ایسی خبر مجھے بری طرح گھائل کردیتی ہے۔ کانپ اٹھتا ہوں یہ سوچ کر کہ نسبت کن سے ہے، وارث کن کے بنتے ہیں اور کرتوت دیکھو۔ابھی چند ماہ پہلے ایک برادر اسلامی ملک نے عظیم’’اسلام دوست‘‘ ٹرمپ کو سرعام اربوں ڈالرز کے ذاتی تحائف دئیے تھے بلکہ پیش کئے تھے اور اب ملائیشیا سے پے در پے ان کے ایک’’صادق‘‘ اور’’امین‘‘ کی بے دریغ لوٹ مار کے ہوشربا حقائق قسط وار سامنے آرہے ہیں۔حاجی نجیب رزاق جو 2009سے 2018تک ملائیشیا کا’’محبوب قائد‘‘ اور وزیر اعظم رہا کوئی للو پنجو نہیں، انڈسٹریل اکنامکس میں گریجویٹ اور ایک سیاسی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ والد کے اچانک انتقال پر اسے آئل کمپنی کی ملازمت چھوڑ کر سیاست میں آنا پڑا۔ 1982میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسے اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے منتخب کیا۔ 1986میں مہاتیر کی تربیت کے بعد وہ کیبنٹ میں منسٹر آف کلچر یوتھ اینڈ سپورٹس بنا اور پھر منسٹر فار ایجوکیشن اینڈ ڈیفنس بھی رہا۔ 2004میں مہاتیر کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ’’حاجی‘‘ نجیب رزاق ڈپٹی پرائم منسٹر بنا اور بہت سی’’اقتصادی اصلاحات‘‘ نافذ کیں۔ تب ملائیشیا مالی بحران کا شکار تھا۔ اپریل 2009میں وزیر اعظم بننے کے بعد حاجی صاحب نے مزید اصلاحات کے ساتھ ساتھ’’ون ملائیشیا‘‘ مہم شروع کی جس کا مقصد لسانی ہم آہنگی، قومی اتحاد اور ایفیشنٹ حکومت تھا لیکن 2014تک مہاتیر نے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وجہ تھی بدعنوانی، بے ایمانی، کرپشن، کک بیک، کمیشن۔ یہIMDBکرپشن اسیکنڈل ہی تھا جس نے 92سالہ مہاتیر کو سیاست میں واپسی پر مجبور کیا اور مہاتیر نے اک نیا اپوزیشن اتحاد بنا کر حکمران اتحاد کو شکست دی جو ناقابل شکست سمجھا جانے لگا تھا۔ملائیشین عوام کو سلامملائیشین عوام کے لئے احترامملائیشین عوام زندہ باد جو صحیح معنوں میں غیور اور باشعور ثابت ہوئے اور اس کرپٹ کو عبرت کا نشان بنادیا جو اپنے ہی ملک کی بوٹیاں نوچ رہا تھا، اپنے ان عوام کا خون پی رہا تھا جنہوں نے اسے عزت بخشی۔ادھر مہاتیر محمد صاحب کے لئے بھی صد احترام جنہوں نے بطور ڈاکٹر کیرئیر کا آغاز کیا۔ انتہائی مشکل حالات میں تب سیاست کا رخ کیا جب چائینز ملا یا لسانی کشمکش عروج پر تھی۔ وزارت عظمیٰ تک پہنچنے اور ملائیشین سیاست پر بیحد گہرے اثرات مرتب کئے اور پھر رضاکارانہ طور پر بھریا میلہ چھوڑ کر تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے لیکن جب دیکھا کہ’’شاگرد‘‘ نے کرپشن کے تمام تر ریکارڈ توڑتے ہوئے ملک کی اقتصادی کمر توڑنی شروع کردی ہے تو برملا یہ کہتے ہوئے پھر سیاست میں آگئے کہ نجیب کے لئے اقتدار کے رستے ہموار کرنا ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔آج پھر مہاتیر وزیر اعظم ہیں۔ نجیب رزاق نشان عبرت بن چکا ہے۔ نجیب اور اس کی اہلیہ روسماہ ای سی ایل میں شامل ہوچکے ۔ پولیسی چھاپوں کے نتیجہ میں اس بدبخت خاندان کی مختلف رہائش گاہوں سے برآمد ہونے والے حرام کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ علیحدہ بات کہ اس تمام تر حرام سے بھی وہ جائیدادیں خریدنا،نا ممکن ہے جو بیرون ملک ہمارے چند عظیم قائدین یا ان کے بچوں کی ملکیت ہیں۔صرف ایک تلاشی جو 18گھنٹوں پر مشتمل تھی کے دوران 284قیمتی ترین Hermes لگثری بیگز، 26 ممالک کی ا ربوں روپے برابر کرنسی، بیش قیمت گھڑیاں، سونے چاندی پلاٹینم کے قیمتی ترین زیورات وغیرہ 72 سوٹ کیسوں میں بھر کر 5ٹرکوں کے ذریعہ قومی خزانہ تک پہنچائے گئے۔ یہ چھاپہ اور تفتیش مشہور زمانہ IMDBاسکینڈل کے سلسلے کی ایک جھلک ہے جس میں نجیب نے اپنے متوالوں کے ساتھ مل کر4.5بلین ڈالر چوری اور منی لانڈرنگ کرکے اپنے ذاتی اکائونٹ میں ڈالے۔ یہاں یہ’’انکشاف‘‘ دلچسپی کا باعث ہوگا کہ نجیب کے اکائونٹ میں یکمشت 700ملین ڈالر جمع کرانے کا’’مسئلہ‘‘ یہ کہہ کر’’حل‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ رقم کسی عرب شہزادے نے تحفے میں دی ہے۔ یہ بھی سن لیں کہHermesکے ہر بیگ کی قیمت تقریباً ایک لاکھ امریکی ڈالر بنتی ہے۔سابق ملائیشین وزیر اعظم کے ایک اور گھر سے 46ارب روپے کیش کے علاوہ دیگر بیش قیمت اشیاء بھی برآمد ہوئی ہیں۔ نجیب کی بیٹی کے اپارٹمنٹ سے بھی 150بیگز پکڑے گئے ہیں۔ 300کروڑ ڈالر کی خطیر رقم علیحدہ۔ پولیس کے مطابق یہ مال مسروقہ خصوصی طور پر بنائے گئے خفیہ خانوں میں چھپایا گیا تھا۔مجھے یقین ہے یہ سب’’ٹپ آف دی آئس برگ‘‘ ہے۔ بہت کچھ نکلے گا اور یہی سب کچھ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ ہے کہ ان کی بیشتر اشرافیہ بے رحمی کی حد تک خائن اور کرپٹ ہے۔ ملکی وسائل عوام پر منصفانہ انداز میں خرچ ہوں۔ انہیں غربت، جہالت، ذلت کے زندانوں سے رہائی مل جائے تو یہ کمانوں سے نکلے ہوئے تیر اپنے نشانوں تک پہنچ سکتے ہیں، نشاۃ ثانیہ کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے لیکن اس کے لئے پورے عالم ا سلام کو اپنی اس جعلی اشرافیہ کے خلاف اٹھنا ہوگا جو نہ صادق نہ امین ہے۔