• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں جمہوریت غریب کی وہ جورو ہے جس کا نان نفقہ اٹھانے والا تو کوئی نہیں مگر حق جتلانے اور دھونس جمانے والے بہت ہیں چونکہ یہ سب کی بھابھی ہے۔ کپتی ساس، نک چڑھی نند، ویہلے جیٹھ، نکمے دیور، تیکھے مزاج کی جیٹھانی اور سازشی ذہن کی دیورانی کی صورت میں کانٹوں کی مالا تو اس جورو کا مقدر ہے ہی مگر آنکھ دکھانے اور جھاڑ پلانے کی ذمہ داریاں سنبھالنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔یہاں تک کہ محلے دار پوچھ گچھ کرنے کو اپنا فرض منصبی خیال کرتے ہیں، پڑوسیوں کا برتائو ایسا ہے جیسے وہ حقیقی سسر ہو یہی وجہ ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر اس بات پر پنچایت بلا لیتا ہے کہ یہ عورت آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے۔ ایک طرف کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرنیوالے خودساختہ مذہبی انتہا پسندوں نے غریب کی اس جورو کا جینا محال کر رکھا ہے تو دوسری طرف کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا راستہ روک کر حساب مانگنے لگتا ہے ۔ بیچاری قسمت کی ماری کتنی ڈنڈی مار لیتی ہو گی ؟ڈنڈا مارنے والوں کو تو کوئی کم بخت نہیں پوچھتا ،اس غریب کی جورو سے حساب مانگنے آجاتے ہیں کہ سبزی کیلئے جو 200روپے تمہارے پاس تھے ان میں سے 300روپے کی کرپشن کیوں کی ،ا سکا حساب دو ، رسیدیں پیش کرو،واضح جواب دو ورنہ…بیچاری دن رات ایک کرکے سب کی بے پناہ امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہے مگر ستائش اور صلہ اس جملے کی صورت میں ملتا ہے کہ تم گھر میں فارغ رہتی ہو ،کرتی کیا ہو آخر؟ اب جب جمہوریت کی بے توقیری کا یہ عالم ہے تو اسکی کوکھ سے جنم لینے والی سویلین حکومتیں بھلا کس کھیت کی مولی ہیں ۔
عظیم دانشور اٹھتے ہیں اور چنیدہ اقوال کی بنیاد پر جمہوریت کی مٹی پلید کرنے لگتے ہیں ۔کوئی امریکی مصنف چارلس بکوسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے ’’جمہوریت اور آمریت میں فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں پہلے آپ ووٹ لیتے ہیں ،پھر ڈکٹیشن لیتے ہیں جبکہ آمریت میں ووٹنگ کیلئے وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا‘‘کوئی برطانوی مزاح نگار الن کورن کے الفاظ مستعار لیکر پھبتی کستا ہے ’’اپنے ڈکٹیٹرز خود منتخب کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں‘‘کوئی فلسفہ بگھارنے کی کوشش میں سگار پیتے ہوئے گورے وائیڈل کا جملہ چسپاں کرتا ہے ’’جمہوریت میں عوام کو انتخاب کا حق تو حاصل ہوتا ہے مگر اس حقِ انتخاب کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دوپین کلرز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے اور بعد میں پتہ چلے کی دونوں پیکنگ میں تھی تو اسپرین ہی‘‘کسی کو جیمز بوورڈ کی بات بہت اہمیت کی حامل لگتی ہے اور وہ منطقی انداز میں کہتا ہے ’’بھیڑیئے اور بھیڑ سے یہ رائے لی جائے کہ وہ شام کے کھانے میں کیا کھانا پسند کریں گے ،جمہوریت یقینا اس سے کچھ مختلف ہونی چاہئے‘‘کوئی نوبل انعام یافتہ مصری مندوب محمد البرادی کی یہ بات نہیں بتاتا کہ جمہوریت انسٹنٹ کافی نہیں جو فوری تیار ہو جائے۔جمہوریت سے بغض رکھنے والے یہ دانشور امریکی اسکالر ایچ ایل میکن کا یہ فلسفہ نہیں سمجھاتے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا دوسرا نام ہے۔ نائیجرین ناول نگار بن اوکری نے کمال کی بات کہی کہ سیاست گر اور جادوگر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں مگرامریکی مصنف اور شاعر کارل سینڈ برگ نے ہمارے جیسے ممالک میں سول حکومتیں چلانے والے مجبور و مقہور سیاستدانوں کو درپیش صورتحال کی اس سے کہیںزیادہ اچھی عکاسی کی ہے ۔وہ کہتا ہے ’’ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں ،ایک اچھالنے کیلئے ،ایک وقت گزاری کیلئے اور ایک منتخب ہوجانے کی صورت میں خرگوش نکالنے کیلئے‘‘۔
کیڑے نکالنے پر آئوں تو میں یہ بھی ثابت کر سکتا ہوں کہ سول حکومتوں نے جتنی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے جس قدر پیسہ جمع کیا اتنی دولت تو نوع انسانی کے امیر ترین شخص منسا موسیٰ کے پاس نہیں تھی ۔ہر کام میں نقص نکالا جاسکتا ہے ،ہر منصوبے میں خامیاں تلاش کی جا سکتی ہیں ،ہر پہلو سے تنقید کی جا سکتی ہے ۔فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام پر کہا جا سکتا ہے ایسے انضمام کا کیا فائدہ اگر اس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی کوئی تدبیر موجود نہیں ۔ اس جمہوری دور میں ہی19برس بعد مردم شماری کا مرحلہ طے ہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ وطن عزیز کی آبادی کتنی ہے ۔ لیکن کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب معلوم نہ تھا تو کونسے کام رُکے ہوئے تھے جو اب ہونے لگے ہیں ۔کولہو کے بیل کی طرح دن رات محنت کرکے بچوں کا پیٹ پالنے والے کو اس سے کیا غرض کہ اس جیسے کولہو کے بیل کتنے ہیں ۔پی ایس ایل کا انعقاد ہوا ،لاہور تو کیا کراچی میں بھی غیر ملکی کھلاڑی آئے ،دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان روانڈا ،عراق یا افغانستان نہیں لیکن جتنے منہ اتنی باتیں ۔ کسی کے سوچنے کا انداز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کے آنے سے تھر میں قحط سے مرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی کیا؟اگر اندرون سندھ آج بھی حیوان اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں تو بھاڑ میں جائے ایسی کرکٹ اور تف ہے ایسی جمہوریت پر ۔ میٹرو بس چلی، اورنج ٹرین منصوبہ مکمل ہونے کو ہے ، سسٹم میں 11000 میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوا ،لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بڑی حد تک نجات ملی ،ملک میں شاہرائوں کا جال بچھ گیا مگر کیا ہے کہ یہ ایک طرفہ موقف ہے ۔عین ممکن ہے بعض لوگ اس بات پر مٹھیاں بھینچ رہے ہوں کہ یہ ترقیاتی بجٹ صحت اور تعلیم پر کیوں نہیں خرچ کیا گیا؟
سویلین بالادستی کے حوالے سے بھی ایک سے زائد آرا ہو سکتی ہیں ۔شاید کچھ لوگ اس طرح بھی سوچتے ہوں کہ ہمیں کیا لینا دینا ان جھمیلوں سے ،ہماری بلا سے کوئی ڈکٹیٹر آئے یا منتخب وزیراعظم حلف اٹھائے ،دن بدلتے ہیں فقط وزیروں کے ،ہم غریبوں کی زندگی کا پرنالہ تو وہیں کا وہیں رہتا ہے ۔بعض افراد یہ بات سن کر بے اختیار ہنسنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں ،میاں ! کیسی جمہوریت اور کونسی سویلین بالادستی ؟شاہراہ دستور کی جس عمارت پر جمہوریت کا بورڈ آویزاں تھا ،اس کی ڈپلیکٹ چابیاں کئی طاقتور لوگ اپنی جیبوں میں ڈالے پھرتے تھے ،آپ کس دنیا میں رہتے ہیں ؟ لیکن آج میں ان باتوں کی خاردار جھاڑیوں سے الجھنا نہیں چاہتا کیونکہ میں بہت خوش ہوں۔ تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود سینیٹ کے انتخابات ہو گئے ،ہارس ٹریڈنگ کا الزام تو کیا یہ دشنام بھی بے جا نہیں کہ اصطبل ہی بک گئے مگر خبر یہ ہے کہ انتخابات کا مرحلہ طے پایا اور اب دو دن بعد دوسری منتخب اسمبلیاں اور ان کے نتیجے میں بننے والی دوسری سویلین حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔آپ کا یہ اعتراض بجا کہ اس حکومت نے بھی گزشتہ حکومت کی طرح سرکس کی تنی ہوئی رسی پر چلتے ہوئے یہ سفر طے کیا اور اس دوران جمہوریت کی پوشاک اتر گئی مگر میں پھر بھی خوش ہوں اور کیسے خوش نہ ہو ں بھلا ،گہرے پانیوں میں ڈوبے لاتعداد جہازوں کے ڈھانچے دیکھتے مسافر کو معلوم ہو کہ بیچ منجدھار ہچکولے کھاتی جمہوریت کی کشتی خونخوار مگر مچھوں سے بچتی ہوئی ساحل کے قریب آن پہنچی ہے تو وہ خوش کیسے نہ ہو؟اس موقع پر یہ بات بے معنی سی لگتی ہے کہ کشتی کو صیح سلامت لے جانے کیلئے ملاحوں نے کیا قیمت ادا کی ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین