• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت سیاسی فضا عمران خان کے حق میں ہے۔ یہ فضا بناتے ہوئے اسے بائیس سال لگے، ان بائیس سال میں جدوجہد کے کئی مراحل آئے۔ آج جو لوگ تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں، ایک زمانے میں وہ پی ٹی آئی کو تانگہ پارٹی کہتے تھے، کیا مکافاتِ عمل ہے آج وہی لوگ تحریک انصاف کا حصہ بننے کے لئے راستے ڈھونڈتے ہیں۔ یہی عمران خان کی کامیابی ہے کہ اس نے مخالفین کو شکست سے دوچار کر دیا ہے، الیکشن میں اترنے سے پہلے ہی مخالفین کی صفیں بکھری پڑی ہیں، انہیں امیدوار تلاش کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
بائیس سال عمران خان کو پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی مافیا کے خلاف مسلسل لڑنا پڑا، طاقتور مافیا نے اس کا راستہ ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رک سکا، عمران خان کو روکنے کے لئے سیاسی مافیا نے بیرونی دنیا سے بھی مدد لی مگر کپتان ڈٹا رہا، اُسے صرف اللہ پر بھروسا تھا، پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی جماعت اس کی مخالف تھی ہر طاقتور سیاستدان اُس کا مذاق اڑاتا تھا مگر اس دوران عمران خان کے جذبے میں کہیں جھول نہ آیا، کبھی وہ دلبرداشتہ نہ ہوا، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ مخالفین نے مایوسیوں کی دیواریں کھڑی کیں لیکن عمران کا حوصلہ مضبوط رہا، اس نے جوان جذبے سے ان دیواروں کو گرا دیا، میں نے اُسے کبھی ہمت ہارتے نہیں دیکھا، اسے ہمیشہ بلند حوصلگی میں پایا۔ اس پر پتھر برسائے گئے، اُسے گرایا گیا، اُسے بلیک میل کیا گیا مگر آفرین ہے پاکستان کے اس انتھک بیٹے پر کہ وہ وطن کی محبت میں، اپنے لوگوں کی خاطر حوصلے سے کھڑا رہا، جھکا نہیں۔ اُس نے بیرونی طاقتوں سے مدد نہیں لی، وہ بیرونی دنیا میں جاتا ہے تو اپنے پیارے پاکستانیوں سے ملتا ہے اُن سے غریب پاکستانیوں کے علاج کے لئے فنڈ ریزنگ کرتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، یہ موسم سرما کی سنہری سہ پہر تھی، میں عمران خان کے ساتھ بنی گالا میں کھلے آسمان تلے بیٹھا تھا، درختوں کے سائے دراز ہو رہے تھے، سیاسی مخالفین کی بات ہوئی تو میں نے خان صاحب کو مولا علیؓ کا یہ قول سنایا کہ ’’اگر کسی کا قد دیکھنا ہو تو اُس کے مخالفین کی تعداد دیکھو‘‘۔ اس قول کے بعد میں نے کپتان سے کہا کہ تمہارا سیاسی قد کس قدر بڑھ چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف تمہارا مخالف ہے، آصف زرداری تمہاری مخالفت کرتا ہے، کراچی کا غیر اعلانیہ حکمران تمہارا دشمن ہے، مذہب کے مبینہ ٹھیکیدار بھی تمہارے دشمن، بھارت نواز اچکزئی بھی مخالف، اے این پی کے اسفند یار ولی بھی تمہاری مخالف صفوں میں کھڑا ہے۔ ذرا سوچئے، یہ سب لوگ آپ ہی کے دشمن کیوں ہیں، اگر آپ کی پارٹی کمزور ہے تو انہیں کس بات کا ڈر ہے؟ ایسا نہیں ہے خان صاحب یہ سب مل کر اکیلے عمران خان کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، یہ سب ڈر رہے ہیں کہ اگر عمران خان آ گیا تو ان کی سیاسی جاگیریں ختم ہو جائیں گی، پورے کا پورا مغرور مافیا زمین بوس ہو جائے گا۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ وہ اچانک اٹھا، اس نے ایک کونے میں مصلّیٰ بچھایا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ شاید اس نے درختوں کے سایوں کو دراز ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور نماز کا وقت کم تھا۔
الزامات کی زد میں رہنے والا میرے پاس ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ وہ انسان ہے جس کے مخالفین پتہ نہیں اس پر کون کونسے الزامات لگاتے ہیں اور یہ ان تمام الزامات کو ایک طرف رکھ کر اپنے خالق کے سامنے پیش ہو جاتا ہے، اس نے کبھی اپنی نمازوں کی تشہیر نہیں کی حالانکہ وہ تہجد بھی پڑھتا ہے۔ کبھی اُس کے کردار پر حملے ہوتے ہیں، کبھی اخلاق پر تو کبھی اسے یہودی لابی سے جوڑ دیا جاتا ہے، اس کا بھی ایک قصہ سن لیجئے۔ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی پہلی پچاس یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، برطانیہ کی اس مشہور یونیورسٹی کو 2005ء میں چانسلر کی ضرورت تھی، انہوں نے دنیا بھر سے سو سے زیادہ اسکالرز اور بزنس منیجرز کو بلایا، بلائے جانے والوں میں زیادہ تعداد امریکی اور یورپی اسکالرز کی تھی، پاکستان اور انڈیا سے صرف ایک بندے کو بلایا گیا، سلیکشن سے پہلے ایک جرمن سائنسدان کو چانسلر کے لئے سب سے مضبوط تصور کیا جا رہا تھا۔ ساری صورتحال اس وقت بدل گئی جب ایک پاکستانی نے ٹیلنٹ، لیڈر شپ اور ماڈرن اسٹڈیز پر بحث میں تمام امیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس مرحلے پر بریڈ فورڈ کے تمام ڈائریکٹرز کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے، مضبوط سمجھا جانے والا جرمن سائنسدان اُس پاکستانی کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’اس پوسٹ کے لئے تم مجھ سے زیادہ اہل ہو‘‘۔
بس پھر کابینہ نے پاکستانی اسکالر کو منتخب کرتے ہوئے کہا ’’بولو کتنی تنخواہ لو گے؟‘‘ اس نازک مرحلے پر اس پاکستانی نے تاریخی کلمات ادا کئے ’’میں یہاں بزنس کے لئے نہیں آیا، ویسے بھی تعلیم اور پیسے کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، میں ایک ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں لوگوں کی اکثریت کو تعلیمی سہولتیں حاصل نہیں ہیں، وہاں کے امیر اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے ہیں، میرے ملک میں امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے، میری زندگی کی خواہش ہے کہ میرے ملک کے غریب لوگ جو اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم نہیں دلوا سکتے، وہ اپنے ملک میں اچھی تعلیم حاصل کریں، میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی اسی صورت میں جوائن کر سکتا ہوں کہ آپ یہ سہولت میرے ملک کو بھی دیں۔‘‘ پاکستانی کی باتیں سن کر کابینہ کو حیرت ہوئی، انہوں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ’’ایسا ممکن نہیں کہ ہم پاکستان میں اپنی ڈگری متعارف کروائیں‘‘ پاکستانی اسکالر بولا ’’پھر آپ پاکستان کا بندہ بریڈ فورڈ کا چانسلر کیوں لگا رہے ہیں؟‘‘ اس مرحلے پر خاموشی چھا گئی، ایک طرح سے بات رک گئی تو وہ اسکالر اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی کرس ٹیلر نے اپنی کابینہ سے کہا ’’اس بندے کو مت جانے دو، اس میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت ہے، جو بندہ اپنے ملک کا وفادار ہو اور کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہو، وہ کام ہمیشہ اچھا کرتا ہے اور اُسے پیسے کا لالچ بھی نہیں، آپ اس کی بات مان لیں۔ ‘‘
قصہ مختصر اس کی باتیں مان لی گئیں پھر وہ نو سال چانسلر رہا، 1986ء کے بعد وہ طویل ترین عرصے کے لئے چانسلر بنا، اُس نے میانوالی میں نمل کالج بنایا، اس اسکالر کا نام عمران خان ہے۔ آج پاکستان کے غریب بچے نمل سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
خواتین و حضرات! عمران خان آپ کو اچھی تعلیم اور صحت کا بندوبست کر دے گا مگر سفارش نہیں کرے گا، آپ کے ملک کو تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بنا دے گا مگر کرپشن نہیں کرنے دے گا، آپ کے ماحولیات، زراعت، سیاحت سمیت سب شعبے ٹھیک کر دے گا مگر پیسے کھانے کا رواج ختم کر دے گا، عمران خان کے ہوتے ہوئے لوٹ مار کا کھیل نہیں ہو گا، وہ ملک کو فلاحی ریاست بنا دے گا، جلد انصاف کا اہتمام بھی کر دے گا مگر سیاسی مافیا کے سامنے جھکے گا نہیں، اس کی خواہش ہے کہ ملک کو ایسے چلائے جیسے مدینے کی ریاست چلتی تھی، جہاں کوئی دکھی، دکھی نہ رہے۔ ملک کے معروف شاعر محمود شام نے الیکشن کے اعلان کے بعد جو تازہ شاعری کی ہے اس میں سے ایک شعر ؎
خلق خدا سے قرب کا موسم پھر آ گیا
سب کچھ ہیں اب عوام، الیکشن قریب ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین