• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جو سیاست دان نام کی مخلوق ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے اس کی آنیاں جانیاں دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس مخلوق کو اگر اقتدار و اختیارمل جائے تو ہاتھ نہیں آتی یاکہیںغلطی سے یہ مخلوق اپوزیشن کا روپ دھار لے اورپارلیمنٹ میں وارد ہو جائے تو اس کے رنگ سب سے نرالے ہوتے ہیں۔ پانچ سال تک کسی نہ کسی شکل میں مزے لوٹتی و قومی خزانے کو چوستی یہ سیاسی مخلوق ایسا تگنی کا ناچ نچاتی ہے کہ دن میں تارے نظر آجائیں۔ آج کل یہ سیاسی مخلوق اپنا اصل روپ دھارے ہوئے ہے۔ ایک ڈال سے اڑتی دوسری پر بیٹھتی یہ سیاسی مخلوق کسی قانون ضابطے یا سیاسی اخلاقیات کی پابند نہیں۔ جب یہ سیاسی مخلوق اپنے عہدے کا حلف اٹھاتی ہے تو عجز و انکسار کا پیکر نظر آتی ہے۔ اُس وقت اس کا مزاج بڑا خوش گوار، معتدل اور مفاہمانہ ہوتا ہے اور چہرے پر ایک خاص قسم کی مسکراہٹ اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ اس مخلوق کا پانچ سال کا درمیانی عرصہ گلے شکووں کے ساتھ گزرتا ہے اور اس کی مسکراہٹ اورمفاہمت پھیکی نظر آنے لگتی ہے۔ ذاتی مفادات کی اسیر یہ مخلوق اپنے گرداب میں اس حد تک گھر چکی ہوتی ہے کہ اسے نہ عوام کی فکر رہتی ہے نہ اپنے وعدوں کا پاس۔ اس مخلوق کا یہ درمیانی عرصہ خالصتاً ’’کاروباری‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ جوں جوں اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے قریب ہے اس مخلوق کا لب و لہجہ سخت سے سخت تر اور آگ اگلنے لگتا ہے۔اسی عرصے میں یہی وہ مخلوق ہے جو اپنی سیاسی قیادتوں کو گالیاں دیتی ہے اوران میں طرح طرح کے کیڑے بھی نکالتی ہے۔یہ وہ مخلوق ہے جو پورے پانچ سال اقتدار کے مزے تو لوٹتی ہے مگر اپنے حلقے کے عوام کو کہیں نظر نہیں آتی۔ جیسے جیسے الیکشن کا موسم قریب آتا ہے یہ مخلوق ہر گھر گلی محلے مسجد میں منڈلانے لگتی ہے۔ یہ سیاسی مخلوق دو طرح کی سلیمانی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہوتی ہے۔ ایک ناراض ووٹروں اوردوسری اپنی سیاسی قیادتوںکے قدموں میں رکھنے کے لئے۔ اس سیاسی مخلوق کا کمال یہ ہے کہ اسے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔جہاں اس کا مفاد ہوتا ہے۔ وہاں اپنی سلیمانی ٹوپی دوسروں کے قدموں میں رکھتے شرم محسوس نہیں کرتی۔ یہ سیاسی مخلوق صرف اپنے مفادات کے تابع ہے اسے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد سے ہرگز کوئی غرض نہیں۔عرصہ اقتدار کے اختتام پر اس سیاسی مخلوق کا انداز فکر ایسا ہوتا ہے کہ جیسے یہی ہمارے چاچے مامے ہوں۔ یہ وہی سیاسی مخلوق ہے جو پورے پانچ سال اسمبلیوں میں تو گزارتی ہے مگر ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتی کہ بھارت ہمارے پانیوں پر قبضہ کر گیا۔ عوام بوند بوند پانی کو ترستے رہے۔ہماری سونا اگلتی فصلیں، کھیت کھلیان بنجرہوگئے۔ تھر کے بچے بلک بلک ،سسک سسک کردم توڑ گئے مگرکسی کو خیال نہ آیا کہ کالا باغ ڈیم نہیں بنتا تو ’’سبز باغ‘‘ نام رکھ کر کوئی نیا منصوبہ ہی اس قوم کو دے دیں کہ اس قوم کی پیاس بھی بجھے اورمستقبل کی پریشانیاں بھی کم ہوں۔ اب جب اقتدار کے آخری لمحات ہیں ہمارے بڑے مدبر فہم و فراست اور مفاہمتی پالیسی کے علمبردار شاہ صاحب کو بھی قومی اسمبلی میں سندھ کی پانی سے محرومی کا درد بڑے زور سے اٹھنے لگا ہے اورکھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ سندھ کو اس کے حصے کا پورا پانی نہ ملا تو ہم صوبائی سرحدیں بند کردیں گے۔ کوئی شاہ صاحب سے پوچھے کہ کیوں اپنے آپ کو اورعوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔سوال تو بڑاواضح ہے کہ سندھ کا اقتدار و اختیارعرصے سے آپ کی جماعت کے پاس ہے پھر آپ نے گزشتہ پانچ سال میں بطوراپوزیشن لیڈر پانی کا قومی مسئلہ حل کرنے کے لئے کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ آج جب وقت گزر گیا، موجودہ قومی اسمبلی کی رخصتی کا وقت آگیا تو آپ کے سینے میں یہ درد دوبارہ تازہ ہونے لگا۔ مزاتو تب تھا آپ اپنے پانچ سالہ دور اپوزیشن میں حکومت پر بھرپور دبائو ڈالتے، مذاکرات کرتے ، کالا باغ ڈیم نہیں تو کوئی متبادل آبی ذخیرے پر مفاہمت کرتے اورمنصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی بیچ کی راہ تلاش کرتے تو آج قوم آپ پر فخر کررہی ہوتی مگر سیاسی مخلوق کے اس کردار کو کون سمجھائے اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی سیاسی مخلوق کے دوسرے کردارہمارے چھوٹے میاں صاحب جو اقتدار کے ابتدائی دنوں میں نندی پور پاور پلانٹ کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے قوم کو باربار یاد دلا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تمہیں لوٹ لیاگیا، تم برباد ہوگئے، اب میں ہوں جو قوم کا دردرکھتا ہوں جو اس پاورپلانٹ کو قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے استعمال کروں گا۔ جی ہاں خوب استعمال کیا نہ پاور پلانٹ چلا، نہ بجلی آئی، نہ پانی ملا، نہ روٹی ملی۔ سب تدبیریں الٹی ہو گئیں، کہیں سستی روٹی کا جھانسہ، کہیں روشن پاکستان کا خواب، کہیں پیاس بجھانے کے وعدے، کہیں لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار دینے کی رسمی باتیں، کیا خوب ہے یہ سیاسی مخلوق کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے کبھی صاف پانی اسکیم، توکہیںچنگا پانی اسکیم اور کہیں کراچی کے لاوارث عوام جنہیں ایک بوند پانی کے لئے بھی ہاتھوں میں نوٹ اٹھاکر اپنے حکمرانوں سے پیاس بجھانے کی قیمت ادا کرنی پڑے مگرپیاس بجھی نہ پانی ملا نہ روٹی ملی، حکمرانوں کے در سے ٹھوکروں کے سوا اس عوام کوکچھ نہ ملا اُلٹا اس سیاسی مخلوق کی جادو گری تو دیکھئے عوام بھوک پیاس سے مر رہے ہیں اوریہ سیاسی مخلوق جاتے جاتے بھی اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوار گئی۔ وفاقی ملازمین کو تین ماہ کی اضافی تنخواہ ، اراکین پارلیمنٹ ، موجودہ و ریٹائر کی مراعات، الائونسز کے ساتھ ساتھ میڈیکل، بلیو پاسپورٹ اورمفت بزنس کلاس فضائی سفر کی سہولتوں کے نام پر قوم کو راتوں رات اربوں روپے کاچونا لگا دیا۔ یہ وہی مخلوق ہے جس کے دوراقتدار و اختیار میں بھارت نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کی اور اسے مکمل کیا مگر یہ سیاسی مخلوق منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ سیاسی مخلوق عالمی بینک کے پاس فریادی بن کر گئی لیکن دلائل سے عاری، عالمی بینک کے بھارت نواز حکام نے انہیں صاف ٹھینگا دکھا دیا۔ قومی اسمبلی کے نام پر قائم یہ ڈبیٹنگ کلب ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں بُری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے ارکان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ بھارت، امریکہ ، اسرائیل ٹرائیکا کا سامنا کرسکیں گے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
یہ وہی سیاسی مخلوق ہے جو انتخابات کے دنوں میں خلاء سے اترتی ہے اور ایوانوں میں پہنچ کر گویا دوبارہ خلاء میں چلی جاتی ہے پھر ووٹر ان کے ’’کمی‘‘ بن جاتے ہیں اور یہ ان کے مالک، ایسے میں یہ اپنی گری ہوئی پگڑی دوبارہ اٹھاتے ہیں اور عوام کی پگڑیوں کو پائوں تلے روندتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں ووٹ میں بڑی طاقت ہوتی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بعض سیاست دان تو ضمیر تک کا سودا کرتے ہیں۔ ایسے سیاست دانوں پر چراغ تلے اندھیرے کا محاورہ صادق نہیں آتا کیونکہ ان کے چراغ تلے تو اپنے خاندان اور مفاد پرستوں کا ٹولہ ہوتا ہے جو پانچ برس تک زر و دولت اور ملکی وسائل کی چکا چوند سے روشن ہی رہتا ہے، عوام تک تو یہ اس کی ایک کرن تک نہیں پہنچنے دیتے۔وقت آن پہنچاہے کہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اس سیاسی مخلوق کی اڑن طشتری کو زمین بوس کردیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین