• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے حوالے سے لکھے گئے میرے کالم(مطبوعہ11اکتوبر) پر موصول ہونے والا فیڈ بیک اس امر کا غماز تھا کہ بے شمار دلوں میں وہ باتیں مچل رہی تھیں جو خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہتی تھیں مگر میں نے کھل کر ان کااظہار کردیا جس پر جہاں بے شمار ٹیلیفون کالز، ایس ایم ایس اور ملاقاتوں کے دوران لوگوں کے جذبات سامنے آئے وہاں اخبارات کے اداریوں اور کالموں میں بھی میرے متذکرہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے تائیدی خیالات کا اظہار کیا گیا ۔
اس ضمن میں ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی کہ خود تحریک سے وابستہ سلیم الفطرت افراد نے میڈیا پرسنز کو دی جانے والی دھمکیوں ،گالیوں اور ذرا سے اختلاف پر ”بکاؤ مال“ کی پھبتیوں والے اس کلچر کی مذمت بھی کی جو تحریک انصاف کی پہچان بنتا جارہا ہے بلکہ تحریک کے بعض دوستوں نے مجھ سے ذاتی طور پر معذرت کی، خود عمران خاں صاحب اور تحریک کے رہنما عارف علوی صاحب نے بھی کچھ ”اگر مگر“ کے ساتھ روئیے کو ناپسند کیا۔
تاہم اس حوالے سے کچھ گزارشات مجھے ابھی پیش کرنا ہیں ، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کسی برائی کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ہم پوری طرح سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ برائی ہمارے اندر واقعی موجود ہے، اگر ہم حقائق سے انکار کرتے رہیں گے تو برائی نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود رہے گی بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی جبکہ تحریک انصاف کے دوستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کے لاڈلے میڈیا پرسنز کو گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہیں بلکہ وہ اس پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ ان کی مخالف جماعت کے لوگ ہیں جو انہیں بدنام کرنے کے لئے ایساکرتے ہیں، چنانچہ میرے کالم کے حوالے سے عمران خاں صاحب اور عارف علوی صاحب کے جو بیانات سامنے آئے ان میں”تمام“ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں جبکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نجم سیٹھی،عرفان صدیقی، ثناء بچہ، شیریں مزاری،نصرت جاوید،تنویر قیصر شاہد اور وہ تمام کالم نگار اور اینکر جو پوری شائستگی سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ سب جماعتوں میں سے صرف تحریک انصاف پر دشنام طرازی کا الزام کیوں دھرتے ہیں؟ کیا ان کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی دشمنی ہے؟
نیز تحریک انصاف کے ترجمان بلکہ ان کے ہمدرداور بہی خواہ کالم نگار اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ”لفافہ جرنلزم“ کی ذیل میں آتا ہو؟ چلئے یہ تو بڑے لوگ ہیں، میں تو ایک بہت معمولی سا ا نسان ہوں اگر میرے بارے میں تحریک کے ترجمان یا اس کے ہمدرد کالم نگار دوستوں میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ دے کہ میری 51سالہ صحافت کے دوران کرپشن کی ایک ہلکی سی چھینٹ بھی میرے دامن پر پڑی ہو تو میں سمجھوں گا کہ اتنی معتبر گواہی کے بعد مجھے کالم لکھنے کا کوئی حق نہیں۔ ان دوستوں کو علم ہوگا کہ الحمراء آرٹس کونسل کے ساتھ میری وابستگی بھی اعزازی نوعیت کی ہے ۔کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے ایک اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ چیئرمین کو ڈیڑھ لاکھ روپیہ ماہوار اعزازیہ دیا جائے جس کی میں نے شدید مخالفت مگر اس کے باوجود یہ فیصلہ ہوگیا تاہم میں نے اگلے روز بورڈ کے ارکان کے نام ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ ”اپنی چیئرمینی کے دوران میں خود کو اس حق سے محروم رکھوں گا کیونکہ میرا ضمیر اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ جو پوسٹ اعزازی ہے اس کا مشاہرہ کسی بھی نام اور کسی بھی حیلے سے وصول کیا جائے“ چنانچہ وہ تمام لوگ جو رزق حلال کے حوالے سے بھی پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان کا دل دکھانے والے کا دل دکھانے والے سوچ لیں کہ وہ روز قیامت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟
اس ضمن میں ایک اور بات جو لوگ ان باضمیر میڈیا پرسنز پر مالی کرپشن کا الزام لگاتے ہیں، جن کی صرف ایک”ہاں“ کے لئے ان کے قدموں میں کروڑوں روپے ڈھیر کئے جاتے ہیں اور وہ حقارت سے اسے ٹھکرادیتے ہیں ، کیا ”ضمیر فروش“ اور ”بکاؤ مال“ ایسی غلیظ گالیاں سن کر وہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اگر اس کے باوجود یہی گالیاں سننا ہیں تو کیوں نہ کرپشن کی گنگا میں ہم بھی ہاتھ دھو لیں تاکہ گالیاں سن کر بد مزا تو نہ ہوں؟ تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ سوچ کبھی ان کے قریب بھی نہیں آسکتی، کیونکہ کوئی بھی شخص”باضمیر“ یا ”بے ضمیر“ اپنی ذاتی کوشش سے نہیں ہوتا، یہ چیز اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔ ”پیدائشی بے ضمیر“ باضمیر بن ہی نہیں سکتا اور جو”پیدائشی باضمیر“ ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ بے ضمیر بن سکے۔
آخر میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ترجمانوں کو مجھے ایک مشورہ دینا ہے اور وہ یہ کہ کارکنوں کو سمجھانے کے علاوہ وہ خود بھی ایسی زبان استعمال نہ کریں جو شائستگی اور تہذیب کے منافی ہو۔ سیاست میں اختلافات بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر پھبتیاں بھی کسی جاتی ہیں لیکن اخلاق کے دائرے سے باہر نکلنا خود اس جماعت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے جو اس کا ارتکاب کرتی ہے، چنانچہ تحریک انصاف کا گراف نیچے آنے کی ایک بڑی وجہ اس کے چھوٹوں اور بڑوں کی بدزبانی بھی ہے ، لوگ سوچتے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ان کا یہ حال ہے اگر اقتدار میں آگئے تو یہ کیا کچھ نہیں کریں گے۔ ہمارا معاشرہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود سیاسی لوگوں کو اپنے سے ہرحال میں بہتر دیکھنا چاہتا ہے اور ایسا پوری دنیا میں ہے۔ سیاسی جماعت کی یہ اضافی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی آداب و اخلاق کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اس کا عملی نمونہ اس کی قیادت پیش کرتی ہے جس کی تقلید اس کے پیروکار کرتے نظر آتے ہیں، اگر ایک عمارت کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھ دی جائے تو پوری عمارت ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ عمران خاں صاحب کو سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اپنا یہ فرض پورا کررہے ہیں۔ یہ صرف انہی کا فرض نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو دائرہ اخلاق کے اندر رہ کر بات کرنا چاہئے تاہم بدقسمتی سے اس وقت اعلیٰ قیادت میں سے صرف عمران خاں صاحب کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ مخالفین کو چور، ڈاکو، لیٹرے اور نجانے کیا کیا کچھ کہتے ہیں، سو سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی یہ کردار کشی کہیں بالواسطہ طور پر مارشل لاء کے حق میں تو نہیں جاتی؟
تازہ ترین