• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کے پاس ایک سیاسی اتحاد تشکیل دینے کے لیے چھوٹی پارٹیوں کے درمیان کچھ ہی اتحادی ہوں گے۔ اگر اس سروے کے محض کچھ نتائج ہی درست ثابت ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے دو موجودہ اتحادی اگرچہ جڑ سے ختم نہ ہوں مگر امکان ہے کہ وہ سیاسی منظر نامے پر بری طرح دھندلا جائیں گے۔ یہ امر بہت اہم ہے کیوں سیاسی افق پر اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ پاکستان میں اتحادی حکومتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ نوے کی دہائی کے انتخابات اور بعد ازاں کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں کے بشمول سابقہ انتخابات کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ امکانی طور پر کوئی بھی واحد پارٹی انتخابات میں مکمل ترین کام یابی حاصل نہیں کر پائے گی اور2008کی منتخب شدہ پارلیمان کی طرح اگلی پارلیمان بھی معلق ہی ہوگی۔ مگر انتخابات سے جو سخت منظر ابھر سکتا ہے وہ شدید طور پر منقسم ووٹ ہیں جن کے باعث کوئی بھی واحد جماعت انتخابات میں نا کامی یا عمومی اتحادی جماعتوں کی غیر دستیابی کی وجہ سے با آسانی حکومت کی تشکیل کے قابل نہیں ہوگی۔ اس طرح انتخابات میں زیادہ کام یابی حاصل کرنے والی جماعت کے پاس فعال اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے کا واحد راستہ صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنی دو بڑی مخالف جماعتوں میں سے کسی ایک کو اتحاد کی تشکیل یا حمایت کے لیے دعوت دے۔ ان جماعتوں کی جانب سے امکانی طور پر انکار ایک طویل سیاسی جمود کو جنم دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی مفلوج ہو جائے گی۔ سیاسی جمود اور بے یقینی کے نتائج خاص طور پر سنگین ہوں گے کیوں کہ فی الوقت موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا معیشت کو انتخابات کے وقت پر اپنے بچاؤ کے لیے فوری اور فیصلہ کن ایکشن کی ضرورت ہوگی۔
انتخابی موسم کا آغاز ہوتے ہی بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے ابتر ہوتے خسارے سے نمٹنے کے لیے در کار لازمی اقدامات سے بچنے کے لیے حکومت پہلے ہی اصلاحات سے گریزاں ہے۔ پبلک فنانس کی خراب کیفیت متعدد منفی رجحانات کے باعث مزید خراب ہو رہی ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ انتخابات سے قریب آتے مہینوں میں یہ عناصر مثبت روپ اختیار کر لیں۔ اندرونی و بیرونی مالیاتی عدم توازن شدید بگاڑ کا شکار ہیں، افراط زرکی شرح بدستور بلند ہے، سرکاری قرضے ریکارڈ سطح کو پہنچ چکے ہیں، مالی خسارہ2008سے اپنی بلند ترین سطح پر ہے اور توانائی کے بحران معیشت سے مسلسل سخت قیمت طلب کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ملک کی تیزی سے کمزور ہوتی بیرونی پوزیشن ہے جسے جاری کھاتے کے خسارے اور زر مبادلہ کے لگا تار گھٹتے ذخائر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک سے ترسیل زر اور برآمدات کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی ادائیگیوں کے توازن کو بھرنے کے لیے کافی نہیں خاص طور پر اس صورت میں جب کہ آمد زر کے غیر ملکی سوتے خشک ہو رہے ہیں اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ملکی تاریخ کی کم تر سطح کو پہنچ چکی ہے۔2013کے ابتدائی کوارٹر میں آئی ایم ایف سمیت مزید دیگر ادائیگیوں کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوجائیں گے۔ نتیجتاً ملک زر مبادلہ سمیت بیرونی قرضوں کی ذیل میں دیوالیہ پن کے بحران کے کنارے کھڑا ہو گا۔ معاشی اندازوں کے مطابق یہ کیفیت انتخابات کے دوران یا فوراً بعد در پیش ہوگی۔ اس وقت معاشی بریک ڈاؤن سے بچنے کا واحد راستہ آئی ایم ایف سے ہنگامی فنانسنگ کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا۔ مگر ایسا کرنے کے لیے ایک نئی حکومت کی ضرورت ہو گی جو اس پوزیشن میں ہو کہ نئے فنڈ پروگرام کو در کار سخت ”اولین“ اقدامات کر سکے۔ اگر اس نازک موڑ پر حکومت سازی میں تاخیر ہوئی اور سیاسی جمود نے طول پکڑ لیا تو وطن عزیز پر اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ معاشی اصلاح اور اسے تباہی سے بچانے کے لیے در کار اقدامات کے ساتھ نا موافق سیاسی نتیجے کے امکان کے خدشے کے باعث تمام سیاسی کھلاڑیوں کو ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں بھی اتنا ہی سوچنا چاہیے جتنا وہ اپنے پارٹی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ملکی استحکام کے خلاف اتنے شدید خطرے کا رخ موڑنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دیں اور بعد از انتخابات شراکت کار پر غور و فکر کریں۔ اگر پاکستان کی معاشی بقاء کی جنگ نا کام ہو گئی تو سیاسی میدان میں کامیابی مٹی میں مل جائے گی۔
تازہ ترین