• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بھول ہی گئے تھے کہ مظہر کلیم نام کا ایک شخص زندہ بھی ہے، اُس کے انتقال کی خبر آئی تو لگا جیسے ہمارا بچپن کسی نے چھین لیا ہو۔ 1980کی دہائی تین چیزوں سے عبارت ہے، جنرل ضیا کا مارشل لا، پی ٹی وی اور جاسوسی ناول۔ جاسوسی ناولوں کی لت مجھے اشتیاق احمد نے لگائی، عمران سیریز سے تعارف مظہر کلیم نے کروایا اور اصل خالق کی تلاش مجھے ابن صفی تک لے آئی۔ ابن صفی کے تخلیق کردہ لازوال کردار علی عمران کو مظہر کلیم نے زندہ رکھا اور بہت حد تک اُسی انداز میں جیسے ابن صفی نے پیدا کیا تھا، اُس کردار کی مٹی پلید نہیں کی۔ مظہر کلیم کی دو خوبیاں تھیں۔ وہ اشتیاق احمد سے کہیں بہتر لکھاری تھے، کردار نگاری کا فن انہیں آتا تھا، انہوں نے صرف ابن صفی کی عمران سیریز کے کرداروں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’جوانا‘‘ جیسے اپنے کردار بھی تخلیق کئے، جوزف کے ساتھ جوانا کا کردار تخلیق کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، اُن کے مقابلے میں اشتیاق احمد کردار نگاری میں کمزور تھے، انسپکٹر جمشید اور کامران مرزا میں کوئی فرق نہیں تھا، محمود، فاروق، فرزانہ اور آفتاب، آصف اور فرحت میں بھی کوئی خاص ایسی بات نہیں تھی جو اُن کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی، البتہ اشتیاق احمد کے ولن کے کردار آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں، یہاں مظہر کلیم کچھ ماند پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظہر کلیم کی دوسری خوبی کہانی کار ہونا تھی، اِس فن میں بھی وہ طاق تھے، وہ جب سائنس فکشن پر مبنی کہانی لکھتے تو اُس کی کچھ نہ کچھ توجیہ ضرور بناتے، اشتیاق احمد یہ کام ایسا عمدہ طریقے سے نہ کر پاتے، مظہر کلیم کے ناول پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک پختہ لکھاری کی تحریر پڑھ رہے ہیں، اُن کے ناولوں میں سسپنس بھی تھا اور تحریر کی روانی بھی، ابن صفی سے انہوں نے کردار ضرور مستعار لیے مگر کہانیاں اُن کی اپنی تھیں جن کے عنوان نہ جانے کیوں وہ انگریزی میں رکھتے تھے۔ مظہر کلیم کا ہم پر ایک احسان یہ ہے کہ انہوں نے علی عمران کو پوری آب و تاب سے زندہ رکھا اور دوسرا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں مطالعے کی عادت ڈالی، بچپن میں اشتیاق احمد نے یہ احسان کیا، لڑکپن میں مظہر کلیم نے اور پھر ابن صفی نے تو گویا اعلیٰ تخلیقی ادب کی لت ہی ڈال دی۔ جب بھی میں 1980 ء کی دہائی یاد کرتا ہوں تو وہ سارا زمانہ آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح گھوم جاتا ہے، ایک گھٹن زدہ معاشرے میں یہ ناول کسی نعمت سے کم نہیں تھے، ہمیں یوں لگتا تھا جیسے ہم علی عمران کے ساتھ زندہ ہیں۔ مظہر کلیم چلے گئے اور علی عمران (ایم ایس سی، پی ایچ ڈی، آکسن) کو بھی ساتھ لے گئے۔ اب اسّی کی دہائی واپس آئے گی اور نہ علی عمران۔ سیکرٹ سروس البتہ وہیں ہے۔
******
سانتا فے، امریکی ریاست ٹیکساس کا شہر ہے، 18مئی کو یہاں کے ہائی اسکول میں ایک سترہ برس کے نوجوان نے فائرنگ کر کے دو اساتذہ سمیت دس طلبا کو قتل کر دیا جن کی عمریں پندرہ سے سترہ برس کے درمیان تھیں، مرنے والوں میں سترہ سالہ پاکستانی سبیکا شیخ بھی تھی۔ معصوم سبیکا تو دنیا سے چلی گئی مگر اپنے پیچھے وہی سوال چھوڑ گئی جن کے جواب ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ کیا سبیکا شیخ کی موت کے بعد امریکہ میں کسی نے یہ کہا کہ دراصل یہ امریکیوں کو بدنام کرنے کی مسلمانوں کی سازش ہے، کیا کسی نے کہا کہ سبیکا کی موت ایک ڈرامہ ہے اسے تو گولیاں لگی ہی نہیں، کیا کسی امریکی نے ڈائیگرام بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی کہ سبیکا کو جب اسٹریچر پر لے جایا جا رہا تھا تو اس کے منہ پر گولی کا نشان ہی نہیں تھا، کیا واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جنرل میں یہ کالم لکھے گئے کہ چونکہ افغانستان میں مسلمانوں نے فلاں امریکی فوجی مار دیا تھا لہٰذا یہ فائرنگ اس کا ردعمل ہے، کیا کسی نے امریکی ٹی وی پر آ کر یہ کہا کہ فائرنگ کرنے والے دراصل ہمارے بھٹکے ہوئے نوجوان ہیں، کیا کسی نے کہا کہ سبیکا تو دراصل پاکستانی ایجنٹ تھی؟ نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مگر اسی طرح گولیاں ملالہ کو بھی ماری گئی تھیں اور اُس کے ساتھ ہم نے یہی کچھ کیا تھا، اُس فائرنگ کو ڈرامہ کہا، ملالہ کو صہیونی ایجنٹ کہا، انٹرنیٹ پر ڈائیگرام بنا کر اپ لوڈ کی، اُس کو ملنے والے تمغوں کو مغرب کی سازش سے تعبیر کیا، اُس بیچاری کا جینا اتنا محال کیا کہ جب وہ اپنے ملک واپس آئی تو اسے سیکورٹی فراہم کرنی پڑی اور اِس بات پر بھی یار لوگوں نے تنقیدکی۔ اور یہ سب کچھ کرنے والے کوئی اَن پڑھ نہیں بلکہ کالجوں یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے ڈاکٹر انجینئر تھے۔ کئی برس تک ہماری گلیوں بازاروں میں بے گناہوں کا خون بہایا جاتا رہا، فوجی جوانوں اور پولیس کے سپاہیوں کے سر کاٹے گئے، ڈنکے کی چوٹ پر اُس خون خرابے کی ذمہ داری قبول کی جاتی تھی اور چھاتی چوڑی کرکے ہمارے تجزیہ نگار اخبارات میں اس کی لیپا پوتی کرتے تھے، کبھی اس کو افغانستان کا ردعمل کہتے اور کبھی بھٹکے ہوئے لوگ کہہ کر قاتلوں کو معصوم بنا کر پیش کرتے۔ کیا امریکہ یا مغرب میں اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی قاتل کو، چاہے وہ سترہ برس کا نوجوان ہی کیوں نہ ہو، کوئی ہیرو بنا کر پیش کرے گا یا اس کے سفاکانہ عمل کی تاویلیں دے گا؟ ہم نے یہ سب کچھ کیا۔ سبیکا شیخ بھی ملالہ یوسفزئی کی طرح معصوم لڑکی تھی، وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، ایک جنونی نے اسے گولیاں مار دیں، امریکی تو سبیکا کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ملالہ کے ساتھ کیوں نہیں کھڑے، کیا اس سوال کا جواب کوئی دے گا؟
******
ماجد جہانگیر ایک مزاحیہ اداکار ہیں، ففٹی ففٹی سے انہوں نے شہرت پائی اور ایسی شہرت جو خوش قسمت لوگوں کے حصے میں آتی ہے، مگر پھر وہ امریکہ چلے گئے، گمنام ہو گئے، کئی دہائیاں وہاں گزارنے کے بعد بالآخر پاکستان آئے، گزشتہ دنوں اُن کی ایک تصویر ٹویٹر پر دیکھی جس میں وہ لاٹھی کے سہارے اپنی گاڑی کے ساتھ کھڑے ہیں اور گاڑی پر لکھا ہے کہ ففٹی ففٹی کے اداکار ماجد جہانگیر فالج کا شکار ہیں، امداد کی درخواست ہے۔ ماجد جہانگیر سے مکمل ہمدردی کے باوجود مجھے اُن کا یہ انداز پسند نہیں آیا، کم سے کم الفاظ میں اسے بھیک مانگنا ہی کہیں گے، قطع نظر اس بات سے کہ جو ’’لت‘‘ انہیں پڑی تھی جس نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا، ایک ایسا اداکار جو امریکہ رہا ہو اور جس نے عروج دیکھا ہو، اسے یہ حرکت زیبا نہیں دیتی۔ ہم ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، کسی ملک سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں یا برے، پہلا سوال دماغ میں یہ آتا ہے کہ یہ ملک ہمیں کتنی امداد دے سکتا ہے! ماجد جہانگیر اگر بیمار ہیں تو انہیں فوراً کراچی کے کسی اسپتال میں داخل کروانا چاہیے مگر اداکاروں کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ چونکہ وہ ٹی وی پر کام کرتے تھے اس لئے انہیں عام آدمی کے مقابلے میں ترجیح دی جائے۔ آج کل کے چوٹی کے گلوکار جو ایک شو کا معاوضہ ڈالروں میں لیتے ہیں اگر تیس برس کے بعد ایسے اپنی تصویر لگا کر راہ چلتے لوگوں سے علاج کے لئے پیسے مانگیں تو کیا اُس وقت یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بے حس حکومت فنکاروں کی امداد نہیں کرتی! مہدی حسن کے بیٹوں نے باپ کو ویل چیئر پر بٹھا کرا سٹیڈیم کا چکر لگا کر بھیک مانگی اور اب ماجد جہانگیر وہی کام کر رہے ہیں۔ ہم نے تو سنا تھا ہم بہت غیور لوگ ہیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین