• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جہاں 25جولائی 2018ء کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ایک ساتھ ہو رہے اس سے تقریباً ایک ماہ قبل 24 جون کو ترکی میں صدارتی اور پارلیمنٹ کے انتخابات ایک ساتھ ہی کروائے جا رہے ہیں۔ ترکی کے انتخابات میں اس بار پاکستانی عوام اور صحافی جس قدر دلچسپی لے رہے ہیں، شاید اس کی بڑی وجہ ترکی کے سرمایہ کاروں کی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور مختلف کاروبار ی لین دین ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافیوں کا ترکی کا دورہ کرنا اور ترکی کے حالات سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی صحافی عام طور پر مغربی میڈیا پر ہی اکتفا کرتے رہے لیکن اب انہوں نے براہ راست طور پر ترکی کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی ہے۔ اس دوران راقم پر بھی تنقید کرتے ہوئے صرف ایردوان ہی کے گن گانے اورحزبِ اقتدار ہی سے متعلق کالم تحریر کیے جانے کا گِلہ کیا ہے۔ اپنے قارئین اور صحافی بھائیوں کا گلہ سر آنکھوں پر، اس لئے آج میں اپنے اس کالم میں ترکی کی حزبِ اختلاف کی سب سے اہم جماعت ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘‘ کے ایک اہم رکن ’’محرم انجے‘‘ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئر مین کمال کلیچدار اولو نے عافیت اسی میں سمجھی کہ اس بار ایردوان کے مقابلے میں وہ خود انتخاب میں حصہ نہ لیں کیونکہ بار بار کی شکست کی وجہ سے ان پر پارٹی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے کا دبائو بڑھ جاتا ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ پارٹی کے کسی اور رکن کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کردیا جائے تاکہ ان کی چیئرمین شپ بھی برقرار رہے ’’محرم انجے‘‘ کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے اس سے نجات بھی حاصل کرلی جائے۔ ترکی زبان کا محاورہ ہے ’’گھر میں کیا ہوا حساب کتاب مارکیٹ کے حساب کتاب سے مختلف ہوتا ہے‘‘ یہی کچھ کمال کلیچدار اولو کے ساتھ ہوا ہے۔ انہوں نے ’’محرم انجے‘‘ جو ان کیلئے انتخابات کے بعد بھی مشکلات پیدا کیے ہوئے تھے سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے انکا نام پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کردیا ۔پنجابی زبان میں ایسے مواقع کیلئے ایک محاورہ استعمال کیا جاتا ہے ’’کبے نوں ماری لات تے کبے دا کب نکل گیا( یعنی کبڑے کوٹانگ ماری تو کبڑے کا کب ہی جاتا رہا)۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’’محرم انجے‘‘ کی گڈی چڑھتی ہی چلی گئی ہے۔‘‘ محرم انجے نے کمال ہوشیاری، سمجھداری، عقل و فہم اور فراست سے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدارتی انتخابی مہم کے دوران حاضرین کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے کیساتھ ساتھ پارٹی سے متعلق لوگوں کے رویوں میں بھی تبدیلی لانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے آغاز کے موقع پر ’’گڈ پارٹی‘‘ کی چیئرپرسن ’’میرال آقشینر‘‘ کو صدر ایردوان کا قریب ترین حریف سمجھا جا رہا تھا لیکن ہوا کا رخ تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے محرم انجے حریفوں کو پیچھے چھو ڑتے مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ یہاں پر یہ عرض کرتا چلوں کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی ترکی میں بائیں بازو کی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے اور جسے اناطولیہ میں (ترکی کے ایشیا ئی حصے) عام طور پر مذہب دشمن جماعت سمجھا جاتا ہےجبکہ ترکی کے تھریس (یورپی حصے) اور بحیری ایجین کی ساحلی پٹی میں اس کو ہمیشہ پذیرائی حاصل رہی یہ پچیس فیصد ووٹ ہی حاصل کرتی رہی ہے۔ صرف بلنت ایجوت کے دور میں اس جماعت کو چالیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے لیکن اب محرم انجے کے صدارتی امیدوار ہونے کی وجہ سے جو مجمع پر چھانے، ان کو قائل کرنے کے فن کے ماہر سمجھے جاتے ہیں عوام کی توجہ حاصل کرنے میں بڑے کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں اپنے کالموں میں ہمیشہ لکھتا چلا آیا ہوں کہ ترکی کی سیاسی تاریخ میں رجب طیب ایردوان جیسا کوئی خطیب نہیں دیکھا گیا ہے وہ اپنے فنِ خطابت کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات سمجھنے والے عظیم ترین لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ محرم انجے ایردوان کے فنِ خطابت میں عشرو عشیر بھی نہیں لیکن اسکے باوجود انجے اپنی تقریروں اور صلاحیتوں سے لوگوں کے دل جیت رہے ہیں۔ محرم انجے عوامی نفسیات سمجھنے کے بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ رکن ِ پارلیمنٹ منتخب ہونے سے قبل طویل عرصے تک ایک اسکول ٹیچر کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے جس کی وجہ سے ان میں اعتماد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ محرم انجے کی ایک اور خوبی ان کا انکسار پسند ہونا ہے۔ علاوہ ازیں وہ مذہب کے بارے میں بھی ری پبلکن کے دیگر اراکین سے مختلف سوچ کے مالک ہیں انکے والد اور والدہ کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا، والدہ اور بہن ہیڈ اسکارف پہننے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہیں جبکہ ری پبلکن پارٹی کو آج تک سب سے زیادہ ہیڈ اسکارف پر پابندی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس سے چھٹکارا پانے کیلئے محرم انجے نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ملبوسات سے متعلق کسی کو نشانہ بنانے کی بھر پور مخالفت کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کی ہیں۔ اپنے قارئین کو ان کے بارے میں مختصر سی معلومات بھی فراہم کرتا چلوں۔ محرم انجے،4 مئی 1964ء 4میں برصا کے نزدیک یال اووہ شہر کے ایلمالیک دیہات میں پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام شریف اور والدہ کا نام ذکیہ ہے۔ انہوں نے ابتدائی، مڈل اور ہائی اسکول تک تعلیم یال اووہ میں حاصل کی جبکہ اولو داع یونیورسٹی سے فزکس میں گریجویشن کی۔ ان کے والد ٹرک ڈرائیور تھے جو چند سال پہلے کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ وہ پہلی بار 2002ء میں ری پبلکن پیپلز پارٹی سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے جبکہ 2007ء اور 2011ء کے انتخابات میں بھی ری پبلکن ہی سے رکنِ منتخب ہوئے۔ محرم انجے نے صدارتی انتخابی مہم کے آغاز پر ہی دیگر تمام امیدواروں بشمول صدر ایردوان سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے مختلف ہونے کا بھی احساس دلوایا ہے۔ انہوں نے تمام صدارتی امیدواروں کے ساتھ مل کر ٹیلی وژن پر Debate کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کی یہ اپیل پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ ترکی کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اگر صدر ایردوان کامیاب نہ ہوسکے تو پھر دوسرے مرحلے میں ان کا مقابلہ محرم انجے سے ہونیکی توقع ہے کیونکہ ان دونوں امیدواروں کو پہلی دو پوزیشن حاصل ہونے کے واضح امکانات ہیں دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کی صورت میں صدر ایردوان اور محرم انجے کے درمیان سخت مقابلہ ہونے اور صدر ایردوان ہی کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین