• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ روز قبل امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں بلوچستان کے مسئلے پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، واشنگٹن کی جارج میسن یونیورسٹی میں ہونے والے اس سیمینار میں بلوچ قوم پرست راہنماؤں کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدیداران نے بھی شرکت کی۔ سیمینار میں شریک بلوچ قوم پرستوں کی بڑی تعداد کی نظر میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے عالمی برادری کو بلوچ قوم پرستوں کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ سیمینار میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر ثنااللہ بلوچ نے کہا کہ خطہ بلوچستان میں پاکستان اور ایران دونوں ممالک نے بلوچ قوم پر مظالم ڈھائے ہیں، خطے کی بلوچ قوم اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امریکہ اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بلوچستان کے داخلی مسئلے کو عالمی فورمز پر اٹھانے کی اس سے قبل بھی کوشش کی جا چکی ہے، ماضی قریب میں امریکی کانگریس کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانیوالی کارروائی بھی اسی کوشش کا ایک حصہ تھی۔ اس صورتحال میں جب کچھ بلوچ قوم پرست رہنما عالمی برادری سے بلوچستان کے مسئلے میں کردار ادا کرنے کو کہہ رہے ہیں، جناب اختر مینگل کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو گفتگو کیا معنی رکھتی ہے،سمجھنابہت مشکل ہوگا۔ میں نے پہلے بھی بلوچستان کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ مذاکرات تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب آپ کوعلم ہو کہ جس گروہ کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کا لیڈر کون ہے یا کون سے افراد ہیں جو کہ بلوچ قوم کی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں؟
اختر مینگل کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد ان کے قوم پرست ساتھی برہمداغ بگٹی بھی کچھ زیادہ خوش نہیں دکھائی دےئے ۔انہوں نے اختر مینگل کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو پیش کئے جانیوالے6 نکات کو بلوچ کاز سے غداری قرار دیا ہے۔ برہمداغ بگٹی کیمطابق اختر مینگل نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، جو کہ بلوچ قوم پرستوں کی نظر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے اور بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم کی ذمہ داری کسی نہ کسی صورت ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ صرف برہمداغ ہی نہیں بلکہ دیگر بلوچ لیڈربھی ایسے ہیں جو اختر مینگل کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو بلوچستان کے مسئلے کے حل میں مددگار نہیں سمجھتے۔بی ایس او نے تو یہاں تک کہا کہ اختر مینگل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جرم میں شریک ہو گئے ہیں۔ ان افراد کی رائے میں پاکستان کے موجودہ آئین کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم کے ساتھ ہونیوالے مظالم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔شمالی امریکہ میں رہائش پذیر سرگرم بلوچ کارکن ڈاکٹر دوستین واحد بلوچ نے شاید ایسے ہی افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے واشنگٹن کے سیمینار میں کہا ہے کہ1973 کے آئین کے ہوتے ہوئے بلوچ افراد کو ان کا حق نہیں مل سکتا۔ اگر بلوچ افراد یا دوسری قومیّتوں کو انکے حقوق دینے مقصود ہیں تو ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ آئین بلوچوں کا استحصال کرتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ واحد بلوچ کو اگر اس بات کا مشورہ دیا جائے کہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعدبہت سے ایسے مواقع پیدا ہو گئے ہیں، جن کی مدد سے صوبوں کیساتھ ہونے والے استحصال کے مسئلے کو بہت حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اور ان جیسی سوچ کے حامل دیگر رہنما جذبات کی بنا پر میرے اس نکتے پر نہ تو غور کریں گے اور نہ ہی اسے تسلیم کرنے کو تیار ہونگے۔لیکن ان کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسئلے کے حل کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو پہلے نظام کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نظام کی تبدیلی اس کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں ۔کچھ افراد کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے موقف اور مطالبات میں کوئی لچک نہیں دکھانا چاہتے اور اسی وجہ سے کسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکاری ہیں۔ ا گر بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا تو پھر کسی بھی قسم کی بہتری کا راستہ نہیں نکلے گا، ڈائیلاگ آئین کی حدود میں ہی ہوتا ہے ۔واشنگٹن میں ہونے والے سیمینار میں جہاں بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے ریاست پاکستان کو ان کے خلاف مہم چلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، وہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدیدار کی جانب سے بلوچستان میں پنجابی آباد کاروں کے قتل کئے جانے کے واقعات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ میں نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا، اس ظلم اور بربریت کے بارے میں قوم پرست رہنما جواب دینے کو تیار نہیں کہ وہ کون سے افراد ہیں جو ان کارروائیوں میں ملوث ہیں؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدیدار کا بھی یہی کہنا تھا کہ بلوچ قوم پرست افراد ریاست کی جانب سے کئے جانیوالے مظالم کیخلاف شکایت کرتے ہوئے یہ مت بھولیں کہ انکی جانب سے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں جو کہ نہایت پریشان کن صورتحال ہے۔ بلوچ قوم پرستوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ اپنے ساتھ ہونیوالی جن زیادتیوں کا ازالہ وہ چاہتے ہیں اس کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ خود ان زیادتیوں کا ارتکاب مت کریں ورنہ یہ معاملہ بہت خونی صورتحال اختیار کر جائیگا۔ بہتر یہی ہے کہ مذاکرت کے ذریعے دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔
حکومت وقت اور ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بلوچستان میں رہنے والے عام لوگوں سے رابطہ بڑھائے ، انہیں اعتماد میں لیں اور ان کی ترقی کے لئے حقیقی معنوں میں کوشش کرے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہو اور وہ خود کو ریاست کا حصہ محسوس کریں، ایسی ریاست جس میں ان کی حیثیت بھیڑ بکری کی نہیں بلکہ ایک انسان کی ہو، جس میں انہیں و ہ تمام حقوق میسر ہوں جن پر بطور ایک شہری ان کا پورا حق ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹر زکو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا ۔ کسی بھی معا شرے میں اصل طاقت عوام ہوتے ہیں، اگر عوام سے ریاست کا رشتہ مضبوط ہو تو چند افراد کی سوچ اس رشتے پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ بغاوت اور علیحدگی کی آواز تبھی ابھرتی ہے جب ریاست سے عوام کا براہ راست رابطہ منقطع ہوتا ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں پہلے ہی پاکستان کیخلاف سازش کا کوئی موقع نہیں چھوڑتیں ، ایسا نہ ہو کہ ہم انہیں اپنے معاملات میں مداخلت کا ایسا راستہ دے دیں، جسکے بعد ہمارے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ آئے۔
تازہ ترین