• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پنجاب کے چار اضلاع کی حلقہ بندیا ں کالعدم قرار دیتے ہوئے نئی حلقہ بندیوں کیلئے ہر نشست پر آبادی کا تناسب پیش نظر رکھنے کی ہدایات سے جہاں حلقوں کی حد بندی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے برتی گئی امکانی غفلتوں کی نشاندہی ہوتی ہے وہیں انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے بھی خدشات جنم لینے لگے ہیں ۔منگل کو عدالت عالیہ نے حلقہ بندیوں کے خلاف زیر سماعت 108درخواستوں میں سے چالیس کا فیصلہ سنایا دیگر پر بھی فیصلے آئندہ 48 گھنٹوں میں متوقع ہیں۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 5 مارچ کو نئی حلقہ بندیاں متعارف کرائی گئی تھیں،جس پر پارلیمانی کمیٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں ن لیگ، پی ٹی آئی اور پی پی پی نے عدالت میں درخواستیں دائر کیں۔کہا جارہا ہے کہ مذکورہ فیصلےسےقومی اسمبلی کے دس اور صوبائی اسمبلی کے اکیس حلقے متاثر ہوں گےبعض مبصرین کےخیال میں اگر مزید دس اضلاع کی حلقہ بندیوں پر ایسے فیصلے آتےہیں تو 25جولائی کو الیکشن کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ دیکھاجائےتو عمومی طور پر یہ تاثر پھیل چکا تھا کہ انتخابی امور،نئی ووٹر لسٹیں اور حلقہ بندیوں کے اہم معاملات طے ہوگئے ہیں۔ نگراں وزیراعظم کے متفقہ انتخاب کے بعد آئندہ الیکشن کے حوالے سےپایا جانے والاابہام بھی بہت حد تک دور ہوا تھا لیکن اب حلقہ بندیوں کے تازہ مسئلے نے صورتحال کو ایک بار پھر پیچیدہ بنا دیا ہے ۔اگرچہ ترجمان الیکشن کمیشن ندیم قاسم کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات سنے جارہے ہیں اور اس وجہ سے انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی اچھا ہوگا کہ کمیشن فی الفور انتخابی حلقوں پر اٹھائی گئی شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کا اہتمام کرے اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں قواعد وضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے آبادی کےتناسب سے نئی حد بندیاں کی جائیں کیونکہ آبادی کا پہلو نہایت اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس میں کی گئی کوئی بھی کوتاہی انتخابی امیدوار اور ووٹر دونوں کیلئے مشکلات کا سبب بنتی ہے۔

تازہ ترین