• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج شہباز شریف کی مسلسل دس سالہ وزارت اعلیٰ کا آخری دن ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعدشہباز شریف نے پنجاب پر سب سے طویل حکمرانی کی ہے۔ ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پنجاب سے کامیابی شہباز شریف کی بہترین کارکردگی کا نتیجہ تھی،وگرنہ صادق آباد سے پہلے اور اٹک کے بعد مسلم لیگ ن کہاں تھی۔طویل اقتدار کے دوران شہباز شریف پر خاصی تنقید بھی کی جاتی رہی مگر جب بھی پنجاب کا موازنہ کسی دوسرے صوبے سے کیا گیا تو پنجاب ترقی کی بلندی پر کھڑا پایا گیا۔یو این ڈی پی کی رپورٹ سمیت عوامی رائے کا کوئی بھی سروے اٹھا کر دیکھ لیں ،پنجاب نے گزشتہ دس سالوں کے دوران ترقی کی نئی منازل طے کی ہیں۔آج اگر ڈیڑھ سال سے زائد پاناما میڈیا مہم،احتساب عدالت کی مسلسل پیشیاں اور نیب کی کارروائیوں کے باوجود مسلم لیگ ن بروقت شفاف انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے صرف الیکشن لڑنے دیا جائے تو یہ پنجاب حکومت کی غیرمعمولی کارکردگی ہی ہے کہ انہیں یقین ہے کہ مسلم لیگ ن عام انتخابات میں باآسانی مخالفین کو زیر کرسکتی ہے۔ حقائق تو یہ ہیں کہ آج لوڈشیڈنگ سے جان چھڑانے کا سہرا بھی پنجاب کو جاتا ہے۔اگر پنجاب حکومت کی جانب سے لگائے گئے پاور ہاؤسزکی بجلی کو نیشنل گرڈ سے نکال دیں تو پاکستان 2013کی پوزیشن پر جاکھڑا ہوتا ہے۔ اگر صوبے میں کہیں چین کے تعاون سے بھی کوئی منصوبہ لگا ہے تو یہ بھی پنجاب حکومت کی محنت ہے ،کیونکہ دیگر صوبوں اور وفاق کے پاس بھی برابر مواقع تھے ،حتی کہ وفاق میں تو مسلم لیگ ن ہی کی حکومت تھی مگر انرجی کے شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی گئی۔کارکردگی کا جو بھی معیار مقرر کرلیں،شہباز شریف پنجاب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
زیادہ دور نہیں جاتا،گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب جانے کا اتفاق ہوا۔ملتان کراس کرنے کے بعد چناب پل کے نزدیک گاڑی خراب ہوگئی۔مئی کی تپتی دھوپ اور ملتان کی گرمی ،قارئین کیفیت کا خود انداز ہ لگا سکتے ہیں۔گاڑی کو ٹوچین کرکے مظفر گڑھ بائی پاس تک لے آئے۔مظفر گڑھ کے اس علاقے میں سیلاب کے دنوں میں خوب آنا جانا ہوا تھا۔ریت کے ٹیلوں کے درمیان سبزے میں گھری ہوئی دو بلند و بالا عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک کرنے میں مگن ہوگیا مگر یہ خاکسار تجسس کی وجہ سے پیدل چلتا چلتا ان بلڈنگز کے قریب پہنچ گیا۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ مظفر گڑھ جیسے دور افتادہ ضلع کے ریگستان میں جدید اسپتال تعمیر کیا گیا ہے۔ایک ایسااسپتال جو نیشنل ہائی وے 5کے دامن میں واقع ہے اور بلوچستان تک کے مریضوں کا مفت علاج کررہا ہے۔اسپتال کے ارد گرد ہرے بھرے درختوں کا راز پوچھا تو پتہ چلا کہ ریت ہونے کے باوجود مقامی انتظامیہ نے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے کونو کے پودے اگائے ہیں۔بہر حال اس دوران تفصیل سے اسپتال دیکھنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ سیلاب سے متاثر مظفر گڑھ میں یہ اسپتال ترک حکومت کے تعاون سے بنایا گیا تھا اور اسی لئے اس کا نام طیب اردوان اسپتال رکھا گیا ہے۔مگر اسی کے ساتھ ایک اور بھی خوبصورت عمارت کھڑی ہوئی تھی۔استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ بھی اسپتال کا توسیعی منصوبہ ہے مگر یہ پنجاب حکومت نے اپنی ذاتی آمدنی سے بنایا ہے۔لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت کی وجہ سے ا س کا نام بھی طیب اردوان کے نام پر رکھا گیا ہے۔جنوبی پنجاب کے جو لوگ مظفر گڑھ جاسکتے ہیں،میری ان سے گزارش ہے کہ وہ پنجاب حکومت کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے اسپتال کے توسیعی حصے کو ضرور دیکھیں۔پاکستان میں اس سے جدید اسپتال کم ازکم اس وقت تک موجود نہیں ہے۔اسپتال کی بلڈنگ اور سروسز کا معیار کسی بھی طرح سے انٹرنیشنل سطح سے پیچھے نہیں ہے۔اس وقت اسپتال نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مریضوں کو بھی صحت کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔اس کے علاوہ بھی پنجاب کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرزاسپتالوں کو دیکھ لیں۔پچاس پچاس سال پرانی عمارتوں کو ایسے بہتر کیا گیا ہے کہ بندہ داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔چند ماہ قبل پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔یقین نہیں آتا کہ پنجاب کے آخری ضلع میں بھی علاج کی سہولتوں کا معیار ایسا شاندار ہوگا۔راجن پور کو بیوروکریسی کالے پانی کے نام سے جانتی ہے۔چند سال پہلے تک جس افسر کو سزا دینی مقصو د ہوتی تھی اسے او ایس ڈی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ راجن پور بھیج دیا جاتا تھا۔اگر کالے پانی والے ضلع میں ایسی کارکردگی ہے تو پھر بالائی پنجاب کی تو بات ہی کچھ اور ہوگی۔
بہر حال آج پاکستان میں تمام حکومتیں اپنی انگزز مکمل کرکے پویلین واپس لوٹ رہی ہیں۔کسی کا صبر نہیں آزمانا چاہئے۔آج پنجاب دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔اصلاحات لے کر آنا بہت بڑی بات ہوتی ہے مگر اصلاحات سے متعلق سوچنا بھی کم نہیں ہوتا۔کیونکہ غیرمعمولی دماغ ہی اصلاحات کے متعلق سوچتا ہے۔200سال پرانے پٹواری سسٹم کو انہی پانچ سالوں میں تبدیل کرکے کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ کا نظام متعارف کرایا گیا۔پولیس میں اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔اس لئے اگر آج مخالفین کو کسی سے خطرہ ہونا چاہئےتو وہ شہباز شریف کی کارکردگی ہے۔اگر شہباز شریف کی کارکردگی نہ ہوتی تو شاید مسلم لیگ ن آج ق لیگ یا پی پی پی کی پوزیشن پر کھڑی ہوتی۔گزشتہ ایک سال کے دوران مسلم لیگ ن نے جس قسم کی صورتحال کا سامنا کیا ہے ۔اس میں ابھی تک پرامید رہنا کہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی جائے گی، صرف اور صرف پنجاب میں بہترین کارکردگی کی بدولت ہے۔مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آئے یا نہ آئے،پنجاب میں مسلم لیگ ن کا وزیراعلیٰ ہو یانہ ہو مگر شہباز شریف کو دہائیوں یاد رکھا جائے گا۔بہترین کارکردگی کے باوجود ہم نے ا س مرد طرح دار کے ساتھ جو سلوک کیا ہے،اسی پر شاعر نے کہا تھا
ہم کو ا س شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
اور
خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین