• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگت بازی ہمارے مزاج کا حصہ ہے اور وہ لوگ جنہیں ہم میدان جنگ میں مات نہیں دے سکتے،ان سے متعلق من گھڑت لطائف پھیلا کر خفت مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔مثال کے طور پر سکھ اور افغان فاتحین نے برصغیرمیں جو قتل و غارت گری کی اس کے جواب میں آج تک بیہودہ لطائف کے ذریعے انہیں بے وقوف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جب محمد شاہ رنگیلا مغلیہ سلطنت کے تخت پر براجمان تھا تو نادر شاہ دُرانی نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مورخین کے مطابق ایک ماہ تک لوٹ مار کے ذریعے ہتھیائے گئے زیورات اور سونے کے برتنوں کو پگھلا کر اینٹوں میں ڈھالنے کا سلسلہ جاری رہا تاکہ انہیں منتقل کرنے میں آسانی ہو ۔مشہورِ زمانہ کوہ نور ہیرے کے علاوہ جو مال و دولت اس وقت ایران منتقل ہوئی ،آج کے دور میں ا س کا تخمینہ 156ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔لوٹ مار کے علاوہ نادر شاہ دُرانی نے اپنے سپاہیوں کو قتل ِعام اور مقامی خواتین کی آبروریزی کی کھلی چھٹی دیدی۔دہلی کا لاہوری دروازہ ،فیض بازار،کابلی دروازہ اور دیگر علاقے لاشوں سے اٹ گئے۔بعدازاں جھوٹی روایات کے ذریعے نادرشاہ کو پرلے درجے کا احمق ثابت کرکے اس عبرتناک شکست کا بدلہ لیا گیا ۔ہمارے عہد کے ایک بڑے مزاح نگار شفیق الرحمان نے ’’تزکِ نادری‘‘ میں نادر شاہ کا جی بھر کے مذاق اڑایا اور دیگر سخن وروں نے بھی حسب توفیق بھرپور طبع آزمائی کی اور ’’نادر شاہی ‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی گئی ۔آج بھی جب کوئی عجیب و غریب قسم کا حکم آتا ہے تو ہم جھلا کر کہتے ہیں ،یہ کیسا نادر شاہی حکم ہے۔اس اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ جب نادر شاہ دُرانی نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ اس حملے کا جواز پیش کریں ایک مشیرنے کہا ،حضور! ہم کہہ دیں گے کہ بھائی پھیرو میں نادر شاہ کی پھوپھی جان رہتی ہیں ،ہم تو ان سے ملنے آئے تھے ورنہ حملے کی نیت نہ تھی ۔دوسرے نے یہ تاویل پیش کی کہ سب نے بھارت پر حملہ کیا مگر ہم نے نہیں کیا اس کے بعد کسی اور جواز کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ تیسرے نے کہا ،باشاہ سلامت ! اتنا عرصہ ہوا ہندوستان پر کوئی حملہ نہیں ہوا ،کیا یہ وجہ کافی نہیں ۔
جس طرح سکھوں کا تمسخر اڑانے کے لئےسکھا شاہی کی اصطلاح متعارف کروائی گئی اسی طرح نادر شاہ دُرانی سے دل لگی کرنے کے لئے نادر شاہی کی ا صطلاح عام ہوئی ۔اس حوالے سے نادر شاہی انصاف پر مبنی ایک روایت بہت مشہور ہے ۔بادشاہ سلامت ! سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئےعدالت لگائے ہوئے تھے کہ کچھ لوگ ایک شخص کو پکڑ کر دربار میں لائے اور گڑگڑائے ،جہاں پناہ ! یہ شخص ہمارے بھائی کا قاتل ہے اسے فوری طور پر سزائے موت دیکر ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے نادر شاہ نے یقین دہانی کروائی کہ تمہارے ساتھ انصاف ہوگا اور آج کا سورج ڈھلنے سے پہلے قاتل کو پھانسی دی جائے گی۔مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو درخواست گزاروں نے بتایا کہ ہمارا بھائی پیشے کے اعتبار سے چور تھا گزشتہ شب جب وہ ایک گھر کی دیوار پھلانگنے لگا تو اینٹ اکھڑ کر اس کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا یہ شخص جسے ہم نے جکڑا ہوا ہے اس گھر کا مالک ہے اورمجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے اگر اس نے اینٹوں کی چنائی ٹھیک کروائی ہوتی تو ہمارا بھائی نہ مرتا ۔نادرشاہ دُرانی نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔اس سے پہلے کہ حکم کی تعمیل ہوتی ،ملزم نے کورنش بجا لاتے ہوئے کہا ،جناب کے عادلانہ فیصلے پر سر تسلیم خم مگر گزارش یہ ہے کہ مکان میں نے خود تعمیر نہیں کیا بلکہ کاریگر سے بنوایا ہے چنانچہ اس ناہنجار مستری کی غلطی کی سزا مجھے دینا ناانصافی ہو گی نادر شاہ نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور مستری کو گرفتار کرکے لانے کا حکم دیا۔مستری بھی بہت سمجھدار نکلا اور اس نے اپنی جان چھڑانے کے لئےیہ تاویل پیش کی کہ جناب اینٹ اکھڑنے کا مطلب یہ ہے کہ چنائی کے لئے مٹی کا گارا ٹھیک نہیں بنا ہو گا اور یہ تو مزدور کا کام ہے ۔بس پھر کیا تھا ،مزدور کی تلاش شروع ہوگئی ،مزدور عدالت میں پیش ہوا تو اس نے کہا ،ظل سبحانی ! یہ بات درست ہے کہ گارا ٹھیک نہیں بنا تھا اور اس میں پانی کی مقدار زیادہ ہو گئی تھی مگر اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔اس دن جب مکان کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا اور ہم کام کر رہے تھے تو ستارہ نامی ایک قاتل حسینہ وہاں سے گزری ،اس نے سرخ رنگ کا انتہائی بھڑکیلا لباس پہنا ہوا تھا ۔میری توجہ بٹ گئی اور میں اس کی طرف دیکھتا رہ گیا ۔نادر شاہ دُرانی نے فرمایا، بالکل ٹھیک کہا تم نے ،یہ اسی خوبرو دوشیزہ کی کارستانی ہے اسے پیش کیا جائے ۔وہ قاتل حسینہ لائی گئی تو اس نے کہا ،حضور!میں تو ہرگز ایسے اشتعال انگیز اور بھڑکیلے کپڑے پہننے کی روادار نہیں ۔یہ سب رنگریز کا کیا دھرا ہے ۔میں نے اسے کپڑے رنگنے کو دیئے اور کہا کہ کوئی مناسب سا رنگ کر دینا ،اس نے یہ قیامت ڈھانے والا رنگ کر دیا تو میری کیا خطا ہے؟نادرشاہ دُرانی نے کہا اس خاتون کی بات بھی دل کو لگتی ہے،اس رنگریز کو ڈھونڈ کر لایا جائے رنگ ساز نے کہا ،بادشاہ سلامت ! میں تو مزدور آدمی ہوں ،فلاں پنسار کی دکان سے رنگ خرید کر لاتا ہوں ،اب اس نے ایسا فتنہ خیز رنگ دیدیا تو اس میں میری کیا غلطی ہے ؟اگر سزا دینی ہی ہے تو اس پنساری کو دی جائے ۔قصہ مختصر اس پنساری کو تلاش کرکے عدالت میں پیش کیا گیا پنساری بیچارہ شریف آدمی تھا ۔وہ اس گرم آلو کو کسی اور کی طرف نہ اچھال سکا اور یوں اینٹ گرنے سے مرنے والے چور کے قتل کی سزا پنساری کو دینے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا ۔
اب ایک نئی مشکل یہ آن پڑی کہ پنساری تیلے کی طرح انتہائی کمزور شخص تھا اور اس کی گردن بہت پتلی تھی جبکہ پھانسی کا پھندا بڑا تھا ۔جب اسے لٹکانے کی کوشش کی جاتی تو پھندا پنساری کے گلے سے نکل جاتا ۔سورج ڈوب رہا تھا اور بادشاہ نے وعدہ کیا تھا کہ آج ہی کے دن قاتل کو سزا دی جائے گی ۔اگر نیا پھندا بنانے کا حکم دیا جاتا تو بات اگلے دن پر جا پڑتی ۔لہٰذا نادر شاہ دُرانی نے فوری اور سستے انصاف کی خاطر مجمع کی جانب نظر دوڑائی اور یہ نادر شاہی حکم دیا کہ پھنداجس کی گردن میں فٹ آجائے اسے پھانسی دیدی جائے ۔یہ روایت تو یقیناًجھوٹی اور غلط ہو گی مگر میں آج بھی بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ حقیقی نادر شاہی دور آج بھی جاری ہے۔ اس نادر شاہی دور کے بیشمار نمونے پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن فی الحال تو میں سوچ رہا ہوں کہ ’’سپائی کرونیکلز‘‘ نامی کتاب لکھ کر مشکل میں پھنس جانے والے جنرل (ر) اسد درانی اپنی جان بچانے کے لئے قومی سلامتی کا گرم آلو کس کی طرف اچھالیں گے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین