• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور ہاں ایک بار پھر ایم اے او کالج۔ گزشتہ کالم میں کالج کے پرنسپل پروفیسر کرامت حسین جعفری کا نام ’’کاشف‘‘ لکھا گیا تھا، یہ کسی کشف ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے، اس طرح کے کشف جو قبلہ طاہر القادری صاحب کو سوجھتے رہتے ہیں۔ جعفری صاحب ملک کی نامور شخصیت تھے اور ان کے علم و فضل کی وجہ سے تمام مکاتب میں ان کا احترام پایا جاتا تھا۔ میں جب کالج میں داخل ہوتا تو جعفری صاحب کے گرد ’’پروفیسروں‘‘ نے گھیرا ڈالا ہوتا اور وہ ان کی حکمت کی باتوں سے مستفید ہو رہے ہوتے۔ میرے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ میں جعفری صاحب سے آنکھ ملنے کے باوجود ان سے ملے بغیر آگے نکل جائوں چنانچہ میں بھی ان کی گفتگو سننے کے لئے وہاں کھڑا ہو جاتا۔ جعفری صاحب گفتگو کے دوران مسلسل کلمہ شہادت والی انگلی ہوا میں لہراتے جاتے تھے اور مسلسل کلام کرتے تھے۔ درمیان میں وقفہ آنے ہی نہیں دیتے تھے کہ ان سے کوئی سوال پوچھا جا سکتا۔ پروفیسر مرزا منور ان کے بہت قریبی دوست تھے، ایک دن میں نے مرزا صاحب سے اس مشکل کا ذکر کیا تو ہنس کر کہنے لگے ’’یہ کونسی مشکل بات ہے، کل جب ملو اور انہیں درمیان میں روکنا چاہو تو چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی انگلی پکڑ لو، وہ چپ ہو جائیں گے۔ مجھ ایسے نوخیز ’’پروفیسر‘‘ کے لئے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا، مگر جب اگلے روز دورانِ گفتگو درمیان میں کافی دیر تک کوئی وقفہ نہ آیا تو میں نے اچھل کر ان کی انگلی پکڑ لی۔ اس کے ساتھ ہی جعفری صاحب ایسے خاموش ہوئے جیسے منہ میں زبان ہی نہیں۔ مگر جونہی میں نے انگلی چھوڑی وہ ایک دفعہ پھر رواں ہو گئے۔ جعفری صاحب میرے بہت بڑے محسن بھی تھے۔ میں جب بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد نوائے وقت سے باقاعدہ وابستہ ہو گیا تو ایک دن ان کا انٹرویو لینے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں مولانا بہاء الحق قاسمیؒ کا بیٹا ہوں تو بولے ’’تم تو میرے بھتیجے نکلے، بتائو بطور لیکچرر کالج کب جوائن کر رہے ہو‘‘ تو میں نے عرض کیا ’’سر، فی الحال تو میں امریکہ جا رہا ہوں‘‘ بولے ’’کب واپس آئو گے؟‘‘ میں نے کہا ’’سر کوئی پتہ نہیں‘‘ کہنے لگے ’’کوئی بات نہیں، جب بھی واپس آئو تمہارے لئے لیکچرر کی سیٹ خالی ہو گی۔‘‘ دراصل جعفری صاحب ایم اے او کالج امرتسر میں والد ماجدؒ کے کولیگ رہے تھے اور اتنا پرانا ساتھ انہیں ابھی تک عزیز تھا۔ چنانچہ جب میں دو سال بعد امریکہ سے ظالم و مظلوم بن کر واپس پاکستان لوٹا تو ایم اے او کالج میں لیکچرر شپ میری منتظر تھی۔ آج یہ نیک روح ماڈل ٹائون لاہور کے قبرستان میں دفن ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے منکر نکیر کو بھی بولنے کا موقع دیا ہو گا کہ نہیں؟
گزشتہ کالم میں پروفیسر ایس اے حامد کا ذکر سرسری طور پر آیا تھا اور یہ میرے اور ان کے ساتھ زیادتی تھی۔ میں ان کا شاگرد تھا، ڈیڑھ سو کی کلاس میں وہ صرف مجھے مخاطب ہوتے اور میری سرخ و سفید رنگت اور جٹکے رویوں کی وجہ سے کہتے ’’اوئے تم کالج کیا کرنے آتے ہو۔ گوجر کا تعلیم سے کیا تعلق۔ اپنے ڈیرے پر رہ کر مجاں (بھینسیں) چویا (دھویا) کرو۔‘‘ جس پر میرے سمیت ساری کلاس ہنس پڑتی۔ پر یوں ہوا کہ میں لیکچرر بن کر ان کا کولیگ بن گیا، صرف کولیگ نہیں بنا، ان کے ساتھ بے تکلفی کی حد تک دوستی ہو گئی۔ ایس اے حامد، صاحب قسم کے آدمی تھے، فیشن ایبل، اعلیٰ سے اعلیٰ سوٹ اور ٹائی، شام کو مال روڈ کے قہوہ خانوں میں اعلیٰ سوسائٹی میں وقت گزارتے تھے۔ اُن کے بارے میں یہ بھی شبہ تھا کہ وہ فری میسن کلب کے رکن بھی تھے، جس کو بعد میں بین کر دیا گیا۔ اس تنظیم کے بارے میں عجیب عجیب طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ اس کی بلڈنگ اسمبلی ہال کے سامنے ہے اور اب یہ سی ایم ہائوس کا حصہ ہے۔ میں نے ایک دن حامد صاحب سے پوچھا کہ اس تنظیم کی پراسراریت کی بہت کہانیاں مشہور ہیں، ان پر کچھ روشنی تو ڈالیں۔ بولے ’’سب غلط ہے، بس یہ ایک عام قسم کا کلب ہے، دوسروں سے تھوڑا سا مختلف ہے‘‘ مگر میرے اصرار کے باوجود اس ’’تھوڑے سے مختلف‘‘ ہونے کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی۔ ایس اے حامد انتہائی ہنس مکھ اور جملے باز تھے اور ہم دونوں کی گہری دوستی کا سبب غالباً یہی قدر مشترک بنی۔ گزشتہ برس تک وہ ایک پرائیویٹ لا کالج کے پرنسپل تھے جو اب میرے ذاتی دفتر سے کہیں اور منتقل ہو گیا ہے۔ اس وقت ان سے ملاقاتیں رہیں۔ وہ 82برس کے ہو چکے تھے مگر مجھے ان میں اور اس وقت کی صحت میں کوئی فرق نظر نہ آیا جب اس ینگ مین نے مجھ بچے کو کہا تھا ’’اوئے تیرا کالج میں کیا کام، جا اپنے ڈیرے پر مجاں چویا کر!‘‘۔ اللہ کرے وہ زندہ ہوں اور ویسے ہی ہوں جیسے وہ تھے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین