• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارہا ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز کیا واقعی ایک ’’جمہوریہ‘‘ ہے؟ جہاں تک اسلامی ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کوئی شک تھا نہ ہے اور نہ کوئی ایسی جسارت کر سکتا ہے۔ ’’جمہوریہ‘‘ کا مطلب عوام کو طاقت کا سرچشمہ ماننا ہے۔ جس کا بدیہی نتیجہ منتخب پارلیمنٹ کی عظمت و بالادستی اور اس کے قائد کی امامت کو تسلیم کرنا ہے۔ اگر کوئی طاقتور شخص یا ادارہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے تو درحقیقت وہ عظمت ِانسانی کے پورے بیانیے کی نفی کرتا ہے۔جمہوریہ کا مطلب تو آزادیٔ اظہار ہے کیونکہ اختلاف رائے ہی جمہوریت کا حسن قرار پایا ہے مگر یہاں پہلا وار اور شکار ہی آزادیٔ اظہار ہے۔ آج یہاں مختلف النوع قومی کمیشنز بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں بڑی اچھی بات ہے آپ بنائیے کمیشن اور کیجئے تحقیقات کہ یہاں کون ہے غدار؟ اس دردناک کہانی کا آغاز اس وطن کو دولخت کرنے والوں سے ہو گا اور دھیان فوری طور پر حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی طرف جائے گا جسے نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی سرکاری طور پر شائع کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔
ہم پوچھتے ہیں کہ بربادیوں کی یہ داستان کب اور کیسے ختم ہو گی۔ اگر ہم مجرمین کی نشاندہی کرتے ہوئے قومی یا پارلیمانی کمیشن کے تحت انہیں قرار واقعی سزائیں نہیں سناتے، عوام کا حق حکمرانی نہیں منواتے مگر یہاں تو عوام کی منتخب قیادت کا اتنا حق بھی نہیں مانا جا رہا کہ وہ حقائق کا برملا اظہار کر سکے۔ درویش یہ عرض کرتا ہے کہ ہم کو اگر یہ معلوم ہو گیا ہے کہ دنیا میں عزت یا بے عزتی والی بھی کوئی باتیں ہوتی ہیں تو ہم اپنی وہ حرکتیں ہی کیوں نہیں چھوڑ دیتے جو دنیا میں ہم سب کی بحیثیتِ قوم جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے وہ طوفان ختم نہیں ہو جائے گا جو اس وقت ہماری ان غیر ذمہ دارانہ حرکات کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے ہے۔
سرد جنگ کے دوران ہم نے مغرب کے ساتھ مل کر جہادی تشکیل دیئے تھے تاکہ سرخ سویرے کی شامِ غریباں منائی جا سکے۔ جب یہ مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اس کے بعد سب کو اپنے اپنے تعمیر و ترقی کے کاموں میں مشغول ہو جانا چاہئے تھا لیکن اگر ہمارے جہادی جذبے ہمیں مجبور کر رہے تھے کہ ہم نے مشن امپاسیبل جاری رکھنا ہے تو لازم تھا کہ سوویت یونین جیسی کسی نظریہ جبر پر استوار بڑی طاقت کے گھر کا راستہ ڈھونڈتے مگر ہم نے تو زہریلی نظریں انہیں پر گاڑ دیں جو سوویت جبر کے خلاف ہمارے فطری و عملی اتحادی تھے۔ بھلے مانسو ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے نظریہ جبر کے خلاف ہم نے مغرب کو استعمال کیا یا مغرب نے ہمیں، جب کھیل ختم اور پیسہ ہضم ہو گیا تو اب جاؤ اپنے اپنے گھروں میں یا پھر کوئی اور کاروبار کر لو۔ آخر ہم نے کیسے سوچ لیا کہ کسی لبرل جمہوری اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والی ریاست کو بھی ہم اُسی دہشت و وحشت کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انڈیا کے متعلق گھر بیٹھے ہم جو مرضی کہتے رہیں مگر پوری مہذب دنیا اسے نہ صرف سب سے بڑی جمہوریت مانتی ہے بلکہ اس کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے بھی سرگرم رہتی ہے۔ ہم اپنے عوام کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو انڈیا دشمنی کے مالیخولیا سے باہر آنا پڑے گا۔ہم لوگوں کا یہ واہمہ اب ختم ہو جانا چاہئے کہ آزادیٔ اظہار یا حریت فکر سے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وقت ملے تو اقوامِ عالم کی ہسٹری پڑھ لیں بربادیاں ہمیشہ بند اور گھٹن زدہ سوسائٹیوں کا مقدر رہی ہیں۔ تمام سازشی تھیوریاں وہیں جنم لیتی ہیں اور پھر سانپ بن کر ڈستی ہیں۔ سوویت انہدام سے سبق سیکھ لیں اپنے ملک کے دولخت ہونے کی وجوہات کا جائزہ لے لیں۔
دنیا کی ترقی یافتہ جمہوری اقوام کا جائزہ لے لو ان کی منتخب قیادتیں جب فرصت پاتی ہیں تو اپنی یادداشتیں مرتب کرتے ہوئے اپنے ادوار کے تنقیدی جائزے قوم کے سامنے پیش کرنا ضروری خیال کرتی ہیں امریکی صدور کی سوانح عمریوں کی سٹڈی کر لو وہ لوگ ہر لمحہ اپنے احتساب کے لیے تیار رہتے ہیں۔ نوم چومسکی جیسا امریکی دانشور عین چوراہے میں بیٹھ کر اپنی ریاست کو وہ وہ مغلظات سناتا ہے کہ الامان والحفیظ پوری دنیا میں اور پورے عالمی میڈیا میں امریکا کے خلاف اور امریکی پالیسیوں کے خلاف وہ کیا کچھ نہیں بولتا اور لکھتا ہے مگر آج تک کسی کی مجال نہیں ہوئی ہے کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا کرے یا ایسے سوچے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ چومسکی اپنی قومی پالیسیوں کے خلاف جب اتنا کچھ تحریر کر رہا ہوتا ہے تو کیا اس سے امریکی ریاست کو کوئی کمزوری لاحق ہو جاتی۔ وطنِ عزیز کے بھائیو اور بہنو ذرا سوچو ہم کب تک اس جبری گھٹن میں دم گھٹنے سے دم توڑتے رہیں گے۔ ہم کب تک بت پرستی کے مرض میں مبتلا رہیں گے۔ سچائی کو سامنے آنے دو حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کو ذرا سوسائٹی میں چھانے دو آپ دیکھو گے سازشی تھیوریاں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ جہالت کی پھکیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی، منافرتوں کے بیوپاری سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ دہشت و وحشت اور انتہا پسندی جیسی سوچوں کو وطنِ عزیز میں سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔ اس کے بعد مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو کر سب اپنی اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی پر جت جائیں گے۔

تازہ ترین