• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے ذیادہ وزنی شے والد کے کندھوں پر جوان اولاد کا جنازہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزارہا پاکستانی والدین نے اپنی جوان اولادوں کی میتیں اٹھائیں۔ پاکستان میں ہزاروں افراد مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے کئے جانے والے بم دھماکوں، فائرنگ وغیرہ کا نشانہ بنے لیکن گذشتہ ہفتے ایک پاکستانی باپ کو اپنی اس جوان عمر بیٹی کا جنازہ اٹھانا پڑا، جو امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ پاکستان کی بہت قابل اور ذہین بیٹی، اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ، بھائی بہن کی محبتوں کا مرکز، سبیکا عزیز شیخ طالب علموں کے کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت ایک سال کےلئے ٹیکساس کے ایک شہر سانتا فے گئی تھی۔ گلشن ِ اقبال کراچی کے رہائشی اس کے والدین اور بہن بھائی ، امریکہ سے سبیکاکی واپسی اور اس کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کے منتظر تھے۔ لیکن ہوا کیا۔؟ دنیا کے مہذب ترین ملک کہلائے جانے والے امریکہ سے سبیکا شیخ کا جسدِ خاکی تابوت میں واپس لایا گیا۔ 9جون کو وطن واپسی پر پھول اس کے گلے میں ڈالے جانے تھے لیکن پھول اس کی میّت پر ڈالے گئے۔ سبیکا کی ماں نے کس دل سے اپنی مرحوم بیٹی کو سفید کفن میں رخصت کیا ہوگا۔؟ باپ نے جوان مرگ بیٹی کا جنازہ کس طرح اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوگا۔ دعا ہے کہ جوان مرگ سبیکاعزیز شیخ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔ غمزدہ والدین اور سب متعلقین کو سوصبرِ جمیل عطا ہو۔ اکثر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے باہر خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ بہت محفوظ ہیں۔ وہ اپنی زندگیاں بلا خوف و خطر بسر کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانیوں کا یہ خیال بھی ہے کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے سب لوگ بہت خوشحال ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کئی سہولتیں میسر ہیں۔ کئی وجوہات کے تحت میں ان خیالات سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرائم اور بدامنی کے معاملے میں کئی حوالوں سے پاکستان بہت سے ترقی یافتہ ملکوں سے بہتر ہی نظر آئے گا۔ امن و امان قائم رکھنے کے لئے بہت زیادہ مالی وسائل، اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس، سراغ رسانی کے انتہائی موثر نظام اور تیز رفتار نظامِ انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ داخلی سلامتی پر ہرسال سو ارب ڈالر سے زائد خرچ کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی سڑک پر چلنے والی آٹو موبائل کی ہر قسم مثلاً بس، ٹرک، ویگن، کار، موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ کے ذریعے مکمل شناخت اور کار میں سوار افراد کی تفصیل سیکورٹی اداروں کے پاس موجود رہتی ہے۔ امریکہ میں پولیس والوں کی تنخواہیں بہت زیادہ اور انہیں ملنے والی مراعات بہت پر کشش ہیں۔ ریاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو نیویارک میں کم سے کم تنخواہ 40ہزار اور زیادہ سے زیادہ 1لاکھ 26ہزار ڈالر ہے۔ واضح رہے کہ یہ بنیادی تنخواہیں ہیں، الاؤنسز اور دیگر سہولتیں اس کے علاوہ ہیں۔ عام شہریوں کی طرح پولیس والوں اور ان کے اہل خانہ کی صحت اور تعلیم کے اخراجات، انشورنس یا ریاست کے ذمہ ہیں۔
2014ء میں جرائم کے لحاظ سے کراچی کو دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا تھا، اس وقت پاکستان میں دہشت گردی اور بد امنی عروج پر تھی۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں، بلوچستان اور کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ پاکستانی فوج، رینجرز ، پولیس اورسیکورٹی اداروں کی ان تھک کوششوں اور قربانیوں سے اور عوام کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی، بدامنی اور لاقانیونیت کی ان لہروں پر قابو پالیا گیا۔ کراچی جو دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا تھا، 2018ء میں 62ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گذشتہ 4سال میں کراچی کے کرائم انڈیکس میں 56 درجہ بہتری آئی ہے۔ آئیے ۔ اب ایک نظر جنوبی ایشیاء کے شہروں میں کرائم انڈیکس پرنظر ڈالتے ہیں۔ سروے کے مطابق جنوبی ایشیا میں پہلے دس خطرناک ترین شہروں کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہے، ڈھاکہ پہلے نمبر پر، اس کے بعد مالدیپ کا شہر مالے، پھر بھارت کا شہر گُر گاؤں ، چوتھے نمبر پر کراچی، پھر بھارت کا دارلحکومت دہلی، ایران کا دارلحکومت تہران، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر بھارت کے شہر کولکتہ اور بنگلور، پھر لاہور اور دسویں نمبر پر خطرناک ترین شہر ممبئی قرار دیا گیا ہے۔ اس سروے میں بھارت، مالدیپ اور بنگلہ دیش کے تین شہر کراچی سے زیادہ خطرناک قرار دئیے گئے ہیں۔
آئیے اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ اس وقت جبکہ دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں کراچی62 ویں نمبر پر ہے۔ امریکہ کا شہر ڈیٹرائٹ اس فہرست میں 17ویں نمبر پر ہے۔ اس کرائم انڈیکس میں دس امریکی شہر بالترتیب 17، 18، 26، 32، 38، 39، 45اور 56درجوں پر ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیز کے انتہائی محدود وسائل کے باوجود کراچی کے حالات امریکہ کے دس شہروں سے بہتر ہیں۔ امریکہ کے ان شہروں میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود نہ تو امریکہ کے قومی الیکٹرانک میڈیا میں چنگھاڑتی ہوئی بریکنگ نیوز سنائی یا دکھائی دیتی ہیں، نہ ہی یہ شہر غیر ملکیوں کے سفر کے لئے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تصورات حقائق سے زیادہ مظبوط ہوتے ہیں۔ (Perceptions are Stronger then Reality)۔ کچھ ہمارے اپنوں کی وجہ سے اور بہت کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی محض چند واقعات کی رپورٹنگ کی وجہ سے پاکستان بالخصوص کراچی کے حالات بہت خراب دکھاکر پیش کئےجاتے رہے۔ ہم پاکستانیوں نے بھی اس صورت حال کو تسلیم کرلیا ہے۔ درحقیقت پہلے بھی اور آج بھی دنیا کے کئی شہروں کے حالات کراچی سے زیادہ خراب رہے ہیں۔
اس جائزے میںایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کراچی، لاہور یا پاکستان کے دیگر شہروں میں جرائم زیادہ نہ ہونے کا کریڈیٹ معاشرے کو زیادہ جاتا ہے۔ کئی شعبوں میں یہاں حالات اس لئے بہتر ہیں کہ پاکستانی بالعموم اچھے لوگ ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی رکھنے والے، ایک دوسرے کے کام آنے والے، ملنسار و مہمان نوازہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی روک تھام کے لئے غیر روایتی انداز میںنئے کئی حفاظتی اقدامات کرنا پڑے۔
پاکستان کے حالات بہتر سے بہتر بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور سماج کے دیگراہم شعبوں کے ذمہ داروں کی جانب سے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ تاہم اولین ضرورت یہ ہے کہ ہم مغرب سے مرعوبیت والی سوچ سے باہر آئیں۔ کیا ہم مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعتِ اسلامی، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے اس معاملے میںدلچسپی لینے کی توقع کرسکتے ہیں۔؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین